کیوبا: تھوک اور خوردہ تجارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت

DW ڈی ڈبلیو بدھ 17 اگست 2022 10:40

کیوبا: تھوک اور خوردہ تجارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2022ء) کیوبا کی حکومت نے سن 1959 کے بعد پہلی بار گھریلو سطح کی ہول سیل اور خوردہ تجارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد اجناس کی شدید قلت کو دور کرنا اور مقامی سطح کی صنعت کو فروغ دینا ہے۔

کیوبا کے وزیر اقتصادیات الیجینڈرو گل نے منگل کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "ریاستی اصول و ضوابط کے ساتھ، ہول سیل اور ریٹیل تجارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری، عوام کو سپلائی میں توسیع اور تنوع کی اجازت دے گی اور گھریلو سطح کی صنعت کی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گی۔

"

نائب وزیر تجارت اینا گونزالیز فراگا کا کہنا ہے کہ سن 1959 میں فیڈل کاسترو کے انقلاب کے بعد پہلی بار غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کیوبا کے تھوک کاروبار میں مکمل ملکیت کی اجازت دی جائے گی، جبکہ خوردہ فروش پبلک پرائیویٹ کے مشترکہ وینچرز میں شامل ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس فیصلے سے پہلے تک کیوبا میں صرف گھریلو مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر میں ہی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت تھی۔

اشیا کی قلت سے عدم اطمینان

کمیونسٹ حکومت کے زیر کنٹرول شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت کا فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملکی کمپنیوں کو غیر ملکی کرنسی اور خام مال تک رسائی میں کس قدر مشکلات کا سامنا ہے۔

کیوبا میں خوراک، ادویات اور ایندھن جیسی بنیادی اشیا کی شدید قلت نے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں عوام کی جانب سے بار بار مظاہرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس کے اواخر میں، ضروری مصنوعات کی غیر رسمی تجارت میں تیز رفتار نمو سے، افراط زر کی شرحیں تقریباً 70 فیصد تک بڑھ گئی تھیں۔

کیوبا کے ماہر اقتصادیات موریسیو مرانڈا پیرونڈو کے مطابق چونکہ، "غیر ملکی تجارت اور خوردہ فروشی پر ریاست کا کنٹرول ہے اور اسی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں ضروری اشیا کی کمی پائی جاتی ہے۔

"

کمیونسٹ نظریات کے کیوبا میں اصلاحات کا عمل

معاشی مشکلات نے کیوبا کی حکومت کو سلسلہ وار معاشی اصلاحات متعارف کرانے پر مجبور کیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں حکومت نے پہلی بار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو ملک میں کام شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔

اس سے کچھ ماہ قبل ہی کیوبا کی حکومت نے پہلی بار پرائیویٹ انٹرپرائز کے اختیارات بھی دیے تھے، تاہم یہ انفرادی طور پر کاروباری افراد تک ہی محدود تھا۔

اس طرح کی معاشی اصلاحات ایک ایسے ملک میں بڑی نظریاتی تبدیلی کی عکاس ہیں، جہاں حکومت اور اس سے وابستہ کمپنیوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے معیشت کے بیشتر حصے پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کیوبا پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں اور پھر کورونا وائرس کے بحران کھڑا ہوگیا، جس کی وجہ سے ملک 30 برسوں میں پہلی بار بدترین معاشی بحران میں پھنسا ہے۔ پابندیوں نے اس کے اہم سیاحتی شعبے کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)