کھاد کے استعمال اور امپورٹ کردہ کھاد کے معیار کی تشخیص کو لازم قرار دیا جائے، زرعی ماہرین

منگل 6 دسمبر 2022 20:20

حیدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 دسمبر2022ء) ملک کے زرعی ماہرین نے زمین کی پیداواری صلاحیت کے تیزی سے متاثر ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس زمین کو ہم اپنی ماں تصور کرتے ہیں اسے ہی زہر دے کر مار رہے ہیں، کھاد کے استعمال اور امپورٹ کردہ کھاد کے معیار کی تشخیص کو لازم قرار دیا جائے، زمین کی پیداواری صلاحیت صرف 30 سے 35 سال تک رہ جانے کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے، زرعی پالیسی میں ترمیم کے ساتھ اس کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔

یہ باتیں ماہرین نے منگل کے روز سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے سینیٹ ہال میں سوئل سائنس شعبے کی میزبانی میں اور سوائل سائنس سوسائٹی آف پاکستان، ایف ایف سی کی فارم ایڈوائزری سینٹر اور عظیم پرائیویٹ لمیٹد کے مشترکہ تعاون سے "مٹی: جہاں سے خوراک شروع ہوتی ہے" کے زیرعنوان مٹی کے عالمی دن کے موقع پر اپنی تقاریر کے دوران کہیں۔

(جاری ہے)

سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد مری نے کہا کہ زراعت واحد شعبہ ہے جو ملکی ترقی میں مزید کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن پاکستان میں جدید زراعت سے لاتعلقی اور کسانوں کو تربیت نہ ہونے کی وجہ سے زمین میں بے ترتیب اورغیر ضروری زہریات استعمال کرنے سے زمین کی پیداواری صلاحیت بتدریج کم ہورہی ہے، اس لیے زمین پر زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے نامیاتی کھاد کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیم تھور سے بچانے کیلئے ماہرین کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے تجویز دی کہ کھاد کے استعمال اور خاص طور پر امپورٹ کردہ کھاد کے معیار کی تشخیص کو لازم قرار دیا جائے، کراپ پراڈکشن فیکلٹی کے ڈین اور مٹی کی سائنس کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر نے کہا کہ سوئل کو خراب کرنے، سمندری مداخلت، کسانوں میں کھاد کے استعمال اور اھمیت کے متعلق معلومات کی کمی سے مٹی سے متعلق مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

مٹی کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے شعبہ سوائل سائنس کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر مہرالنسا میمن نے کہا 95 فیصد خوراک مٹی سے ملتی ہے، لیکن نامیاتی کھاد کے عدم استعمال سے زمین کی پیدواری صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ ایف ایف سی کی فارم ایڈوائزری سینٹر کے سربراہ شفیق الرحمن نے کہا کہ ہم زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے شارٹ کٹ کے چکر میں مٹی کا ایسا حشر کر رہے ہیں جس سے زمین کی پیداواری عمر 30 سے 35 سال رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا گزشتہ دس برسوں میں موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل اور آبادی میں بتدریج اضافے سے بھوک سے متاثرہ لوگوں میں حیران کن اضافہ ہوا ہے، اور 2 بلین لوگ خوراک کی کمی سے متاثرہ ہیں، جبکہ 37فیصد لوگ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ زرعی تحقیقاتی ادارے سندھ کے سوائل فرٹیلٹی انسٹی ٹیوٹ کے ڈئریکٹر ڈاکٹر حفیظ اللہ ببر نے کہا ہم زمین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں اور اسی کو زہر دیکر خود قتل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ہم نے زمین کے بہت کچھ حاصل کیا ہے اب اسے بچانے کیلئے اسے دینے کا وقت ہے، ہمیں بائیوڈائورسٹی کو اہمیت دینی ہوگی، زمین میں سے نیوٹریشنز کی کمی پورے ملک کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے، اور ماہرین پر زیادہ ذمیداری عائد ہوتی ہی۔ تقریب میں ڈین ڈاکٹر منظور علی ابڑو،ڈاکٹر محمد ابراھیم کیریو، ڈاکٹر سید ضیا الحسن شاہ، ڈاکٹر شاھنواز مری، سیڈا کے پرویز بانبھن، ساجد وسطڑو، سہیل احمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا، قبل ازیں سوائل سائنس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ریلی بھی نکالی گئی، جبکہ پوسٹر کامپٹیشن کے پوزیشن ھولڈر طلبا میں ایوارڈ بھی تقسیم کئے گئے۔