”روڈا“ اہلکاروں کا پولیس کی مدد سے کھڑی فصلوں کو تباہ کر کے زمینوں پر قبضہ‘زبردستی مالکانہ حقوق منتقل کیئے جارہے ہیں .کسانوں کا الزام

حکومت موجودہ لاہور شہر کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام نظرآتی ہے ٹریفک ‘لا اینڈ آڈر‘پبلک ٹرنسپورٹ‘ناکافی صحت وتعلیم کی سہولیات سے لے کر صفائی تک ہر شعبہ حکومت کی ناکامیوں کی داستان سنا رہا ہے‘شہر کو مزید وسعت دینے کے نتائج کس قدر خوفناک ہونگے اس کا اندازہ بھی شاید حکومت اور بیوروکریسی میں بیٹھے ”شہ دماغوں“کو نہیں .ماحولیاتی‘شہری امورکے ماہرین اور ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم کا خصوصی تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 9 دسمبر 2022 15:22

”روڈا“ اہلکاروں کا پولیس کی مدد سے کھڑی فصلوں کو تباہ کر کے زمینوں ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 دسمبر ۔2022 ) راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا)منصوبے کی تکمیل کے لیے سرکاری اہلکاروں نے پولیس کی مدد سے کسانوں کی کھڑی فصلوں کو تباہ کرنے کے بعد ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا جبکہ ماحولیاتی امور کے ماہرین اس منصوبے کو لاہور کے زہرقاتل قراردیتے ہیں. پنجاب حکومت اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی(ایل ڈی اے)کی جانب سے دریائے روای کے دونوں کناروں کی زمینوں پرمختلف ادوار میں برطانوی راج کے بنائے 1894کے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی سکیشن فورعائد کی جاتی رہی جس کے تحت حکومت کوئی بھی زمین ”سرکاری یا عوامی مقاصد“کی آڑمیں شہریوں سے زبردستی لینے کا حق رکھتی ہے.

(جاری ہے)

حاجی یونس ان متاثرہ کسانوں میں سے ایک ہیں جو تقریباً ڈیڑھ سو ایکٹر زمین کے مالک ہیں اور روڈا نے ان کی زمین حاصل کی ہے ان کا دعوی ہے کہ حکام ان کی 97 ایکٹر زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں اور زبردستی ان کی زمینوں کے مالکانہ حقوق محکمے کے نام منتقل کیے جا رہے ہیں وہ معاملے کو مقامی عدالت میں لے گئے ہیں جہاں ان کے حق میں فیصلہ آیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی زمین واپس نہیں کی جا رہی.

امریکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے حاجی یونس نے بتایا کہ روڈا حکام ان سے زمینیں لے نہیں رہے بلکہ زبردستی قبضہ کر رہے ہیں رواں ہفتے زمینیوں کے حصول کے لیے کی جانے والی کارروائی میں کسانوں کی دو دو فٹ کھڑی گندم کی فصل ہل چلا کر تباہ کر دی گئیں.
دریائے راوی کے کنارے بنائی جانے والی ہاﺅسنگ سوسائٹی ” راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ“ پنجاب حکومت کا منصوبہ ہے جس کا سنگِ بنیاد اگست 2020 کو رکھا گیا تھا اس منصوبے کا کل رقبہ ایک ایکٹر سے زائد پر مشتمل ہے جبکہ یہ منصوبہ نون لیگ کی حکومت نے 2013سے2018تک کے اپنے دور حکومت میں شروع کیا تھا جس کے تحت ضلع شیخوپورہ کو ایل ڈی اے کنٹرول قراردے کر وہاں ایل ڈی اے کے دفاتر قائم کردیئے تھے کیونکہ دریائے روای کا مغربی کنارہ ضلع شیخوپورہ کی حدود میں آتا ہے .

اس منصوبے کے تحت 12 صنعتی زونز اور رہائشی یونٹس بنائے جائیں گے جس کے لیے ابتدائی طور پر 44 ہزار ایکڑاراضی کی نشان دہی کی گئی ہے ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اِس منصوبے کو گیم چینجر قرار دیتی رہی ہے جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو اس وقت حکومت پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ اسے تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا. عبدالغنی بھی اس منصوبے کے متاثر ہیں جن کی زمین روڈا حکام حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ روڈا حکام زمین کے حصول کے لیے جو طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں وہ صریحاً عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے عبدالغنی نے کہا کہ اگر روڈا کو کسی بھی مقصد کے لیے زمین چاہیے تو وہ کسانوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرے لیکن خاندانی زمینوں کو زبردستی حاصل کیا جا رہا ہے.

عبدالغنی کا کہنا ہے کہ ان کی زمینوں کی مارکیٹ ویلیو 35 سے 50 لاکھ روپے فی ایکڑ ہے لیکن حکام انہیں آٹھ سے بارہ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے ادائیگی کر رہے ہیں جو کسی صورت قبول نہیں انہوں نے بتایا کہ حکام ان کی قابلِ کاشت زمینوں کو بنجر قرار دے کر زمینوں کے دام ڈی سی ریٹ کے حساب سے لگا رہے ہیں ڈی سی ریٹ سے مراد کسی بھی ضلع میں ڈپٹی کمشنر زمین کی قیمت کا تعین کرتا ہے جس کے تحت زمینوں کو خریدا اور بیچا جاتا ہے.

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 25 جنوری کو اپنے ایک حکم میں روڈا منصوبے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کا حکم دیا تھا تاہم پنجاب حکومت نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا سپریم کورٹ نے 31 جنوری کو سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو منصوبہ جاری رکھنے کی مشروط اجازت دے دی تھی. سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ روڈا اتھارٹی صرف اس زمین پر کام کرسکتی ہے جس کے مالکان کو معاوضہ ادا کر دیا گیا ہے لیکن کسانوں کا الزام ہے کہ روڈا حکام معاوضہ ادا کیے بغیر مزید زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے ایک لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلے اس منصوبے پر ماہرین ماحولیات اور شہری ترقی کے ماہرین کے اعتراضات تو سامنے آتے رہے ہیں کیونکہ لاہور پہلے ہی ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر کا شہر بن چکا ہے اور فضائی آلودگی کے عالمی انڈکس میں لاہور اکثر وبیشتر سرفہرست رہتا ہے لہذا ایسی صورتحال شہر کو مزید توسیع دینا نہ صرف ماحولیاتی اعتبار سے خوفناک منصوبہ ثابت ہوگا بلکہ لاہور کو تازہ سبزیوں اور دودھ کی سپلائی پر بھی اثرات مرتب کرئے گا.


مقامی یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سربراہ ڈاکٹرپروفسیر منور صابر کا کہنا ہے کہ لاہور کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ شہر ”نان گورن ایبل“ہوچکا ہے شہرکے پھیلاﺅ اور آبادی کے مقابلے میں سہولیات سکڑرہی ہیں‘ڈیڑھ کروڑکے قریب آبادی کے شہر میں لااینڈآڈرقائم رکھنے کے پولیس فورس ہے نہ ہی صفائی کے لیے اتنا عملہ دستیاب ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر میں ہر جگہ کوڑے کے ڈھیراور گندگی کے انبار نظرآتے ہیں ان حالات شہر کا مزید پھیلاﺅ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے.

واسا لاہور کے ایک سابق سربراہ نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہرکی موجودہ آبادی کے لیے زیرزمین پانی زیادہ سے زیادہ دس سال تک چل سکے گا ہم نے 2015میںپچھلی صوبائی حکومت کو ایک تفصیلی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ نئی ہاﺅسنگ بنانے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ لاہور کا واٹرٹیبل بڑی تیزی سے گررہا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی ایک بار اس رپورٹ کو دیکھ لے اس کے بعد کوئی فیصلہ کرئے ہم رپورٹ میں تمام حقائق اور اعدادوشمار کے ساتھ بات کی ہے .

انہوں نے کہا کہ جب شہر میں پانی ہی نہیں ہوگا تو کیا شہری کنکریٹ کی ان عمارتوں کو چاٹیں گے ؟انہوں نے بتایا کہ گزشتہ اور موجودہ پنجاب حکومت میں پیسے کی ہوس کے مارے چند لوگ ہیں جو ڈپٹی کمشنراور انتظامیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ان کے فرنٹ مین ہزاروں روپے فی کنال کے حساب سے زمینیں خرید کر رکھ لیتے ہیں اور سرکاری محکموں کو کہا جاتا ہے کہ انہی زمینوں کے لیے کروڑوں روپے فی کنال ادا کریں .

ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“اور انجمن شہریان لاہور کے رکن میاں محمد ندیم نے کہا کہ زمینوں کے اس دھندے نے باغوں کے شہر لاہور کے حسن کو برباد کردیا ہے ڈاکٹرمنور صابر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ غالبا2002میں انہوں نے اس وقت کے ناظم اعلی لاہور میاں عامر محمود کا ایک انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے لاہور سٹی گورنمنٹ کے پاس دستیاب وسائل اور ورک فورس کے بارے میں بتایا تھا جو کہ اس زمانے میں بھی آبادی کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھی تو آج بیس سال کے بعد کی صورتحال کا اندازاہ آپ بخوبی کرسکتے ہیں .

انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے مکمل ہولڈ کے باوجود تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی ہے شہر میں ‘ لاہور میٹروپولیٹن کی حدودجس بے رحمانہ طریقے سے بڑھایا گیا اسی کا نتیجہ ہے کہ لاہور مہنگا ترین شہر بنتا جارہا ہے عام پاکستانیوں کی فی کس آمدن کے تناسب سے‘کیونکہ شہر کے وہ نواحی دیہات جو شہر کو خوراک‘دودھ‘تازہ سبزیاں‘گوشت اور دیگر اشیاءفراہم کرتے تھے ان آباد اور زرخیززمینیوں پر آج رہائشی سکیمیں قائم ہیں .

انہوں نے کہا کہ واسا نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس کی کاپی ان کے پاس بھی محفوظ ہے اور آج ہم اسے حقیقت میں بدلتا دیکھ رہے ہیں لاہور کا واٹرٹیبل تیزی سے نیچے جارہا ہے . انہوں نے کہا کہ شہر کا اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے گرمی کا موسم اکتوبر تک آگیا ہے جبکہ سردیاں سکڑکرصرف دو سے تین ماہ تک رہ گئی ہیں ‘فضائی آلودگی سے شہر کی فضاﺅں میں زہر گھل گیا ہے مگر حکومتوں کی ضد ہے کہ انہوں نے شہر کو مزید توسیع دینا ہے انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ”روای اربن سٹی“منصوبے کو نیا شہر قرار دیتی ہے تو کیا روای سائفن سے ہیڈ بلوکی تک کا علاقہ لاہور سے سو میل دور ہے؟لہذا72کلومیٹرطویل ‘پانچ کھرب کی لاگت سے بننے والے اس منصوبے کا فیزون ایک لاکھ ایکٹر سے زائدرقبے پر مشتمل ہوگا جبکہ موجودہ شہر تقریبا سوا سے ڈیڑھ کروڑکی آبادی کے ساتھ ڈیڑھ سو مربع کلومیٹر تک پھیل چکا ہے ‘حکومت شہر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام نظرآتی ہے ٹریفک ‘لا اینڈ آڈر‘پبلک ٹرنسپورٹ‘ناکافی صحت وتعلیم کی سہولیات سے لے کر صفائی تک ہر شعبہ حکومت کی ناکامیوں کی داستان سنا رہا ہے تو شہر کو مزید وسعت دینے کے نتائج کس قدر خوفناک ہونگے اس کا اندازہ بھی شاید حکومت اور بیوروکریسی میں بیٹھے ”شہ دماغوں“کو نہیں .

میاں ندیم نے کہا کہ لاہور کو بچانے کے لیے روای کے کنارے کی زمینوں کے لیے خصوصی لینڈکوڈ بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسے زراعت‘لائیواسٹاک اور اربن گارڈننگ کے لیے استعمال کیا جائے مگر افسوس کہ حکمران اور افسرشاہی اپنے کک بیکس کو دیکھتی ہے ‘کالا شاہ کاکو کے قریب لاکھوں ایکٹراراضی غیرآباد پڑی ہے نیا شہر بسانا ہے تو وہاں بسایا جائے اور اسے ڈبل ٹرین ٹریک کے ذریعے لاہور سے منسلک کردیا جائے.