ڈاکٹر کے مشورے کے بغیرملٹی وٹامنزاورسپلیمنٹس کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے، طبی ماہرین

پیر 29 مئی 2023 11:22

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 مئی2023ء) بڑھتی عمر کے ساتھ تھکن کا شکار ہونے والے افراد کی طرف سے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بڑھتی عمر میں لوگ عام طور پر ان کا استعمال جسم میں غذائی کمی کو پورا کرنے کےلئے کرتے ہیں۔یہ سپلیمنٹس یا وٹامنز ہمارے جسم میں مختلف وٹامنز، منرلز، کیلشیم، آئرن اور پروٹین جیسے غذائی اجزا کی کمی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

لیکن فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے ان کے بعض مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق غذائی سپلیمنٹس اچھی خوراک کا نعم البدل ہرگز نہیں ہو سکتے۔ ماہرین کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ایسے سپلیمنٹس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر سنیلا گرگ کے مطابق مختلف طرزِ زندگی کے حامل افراد کے لیے ملٹی وٹامنز کی تعداد کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتی اس لیے ضروری ہے کہ سپلیمنٹس کا استعمال ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کیا جائے۔

ڈاکٹر راج آرون نے کہا کہ 30 سے 40 سال کی کئی خواتین خود سے ملٹی وٹامنز کا استعمال شروع کر دیتی ہیں تاہم یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ ملٹی وٹامنز کے اپنے مضراثرات بھی ہوتے ہیں ۔ بھارتی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیس، اوبیسٹی اینڈ کولیسٹرول کی سربراہ ڈاکٹر سیما گلاٹی کا کہنا ہے شہروں میں یہ رواج عام ہے کہ لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے سیلف میڈیکیشن کے تحت اپنا علاج خود کرنے لگتے ہیں چنانچہ بعض اوقات ان کے علاج کے بجائے یہ دوائیں الٹا نقصان پہنچاتی ہیں۔

ڈاکٹر سیما گلاٹی کے مطابق گوگل یا سوشل نیٹ ورکس سے معلومات حاصل کر کے ادویات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اور بہت سی دوائیں ڈاکٹروں کے نسخے کے بغیر بھی دستیاب ہیں جو کہ فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہے۔تمام ڈاکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کردہ سپلیمنٹس کو تجویز کردہ مقدار میں ہی استعمال کیا جائے کیونکہ تجویز کردہ مقدار سے زیادہ سپلیمنٹ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کے جسم پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وٹامن ای اور اومیگا3 فیٹ سلیوب وٹامنز ہیں، ان وٹامنز کو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کرنا ان کے جسم میں جمع ہونے کا باعث بن سکتا ہے جو جسم میں کئی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔وٹامن اے اور وٹامن ای کی ذیادتی بار بار قے ہونے، بینائی میں دھندلاہٹ سمیت دیگر مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ اگرچہ وٹامن ای بلڈ پریشر کو کم کر سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے لہٰذا ان کو ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ ہی استعمال کیا جائے۔

ڈاکٹر سیما گلاٹی کے مطابق ’بہت سے وٹامنز جسم میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور اگر یہ زیادہ مقدار میں جسم میں داخل ہو جائیں تو یہ بھی فضلے کے ذریعے جسم سےخارج ہو جاتے ہیں۔وٹامن بی جسم میں خون کے سرخ خلیات بنانے میں مدد فراہم کرتا ہےاور ساتھ ہی ساتھ یہ دماغ اور اعصابی خلیوں کو مضبوط بنانے کا بھی کام کرتا ہے۔ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی واقع ہو جائے تو اس سے انسانی جسم پر واضح اثرات ہو سکتے ہیں جن میں جلد زرد پڑنا، تھکن اور کمزوری کا احساس،قبض اور گیس کا مسئلہ ، بھوک میں کمی ، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں تاہم شوگر کے مریض کی طرف سے بغیر کسی وجہ کے وٹامن ڈی کا زیادہ دیر تک استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر راج ارون کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی بچوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک میں نظر آتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ کھلی فضا سے اجتناب اور ذیادہ تر چار دیواری کے اندر وقت گزارنا ہے۔سورج کو وٹامن ڈی کے حصول کا قدرتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب لوگ باہر کم نکلتے ہیں۔ اگر پیدل چلنے، کھیل کود یا جسمانی مشقوں کے دوران سورج کی روشنی جسم تک پہنچتی ہے تو وٹامن ڈی جسم میں کیلشیم کو جذب کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔

ڈاکٹر راج ارون کے مطابق ہمیں صرف تین ماہ تک وٹامن ڈی لینا چاہیے، لیکن لوگ اس دورانیہ کو بڑھا دیتے ہیں اور اس صورت میں سانس لینے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، تھکاوٹ، چکر آنا، الجھن، بار بار پیشاب کی حاجت ،ہائی بلڈ پریشر اور دیگر ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر سیما گلاٹی کے مطابق عموماً ڈایئٹ کے دوران خوراک کا مطلوبہ تناسب خراب ہو جاتا ہے اور وٹامنز بھی غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اچھی غذائیت کا موازنہ سپلیمنٹس سے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اچھی غذائیت جسم میں تمام غذائی اجزا کی کمی کو دور کرنے میں مدد دیتی ہےاس کے ساتھ ساتھ ورزش کو بھی زندگی کا حصہ لازمی بنایا جائے۔