180 حلقوں میں آبادی کا فرق 10 فیصد مجوزہ تبدیلی عمومی اجازت سے متجاوز ہے،فافن

ہفتہ 30 ستمبر 2023 20:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 ستمبر2023ء) فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) نے 180 حلقوں میں آبادی کا فرق 10 فیصد مجوزہ تبدیلی کو عمومی اجازت سے متجاوز قرار دے دیا۔فافن کی جانب سے جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 20 فیصد سے زائد مجوزہ حلقوں کی آبادی میں کمی بیشی کی شرح 10 فیصد کی قانونی حد سے متجاوز ہے۔

یہ فرق پارلیمنٹ سے منظور مساوی رائے دہی کے اصول کے بھی خلاف ہے۔الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات مقامی سطح پر وصول کرنے کا اہتمام کرے ، فافن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ادارہ شماریات کو آبادی کے تفصیلی اعداد و شمار جاری کرنے کی ہدایت کرے۔حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ و مجوزہ حلقوں کی فہرستوں میں آبادی کے فرق پارلیمان سے منظور ترمیم کے تحت نہیں کیا گیا،فافن کے مطابق صرف 11 قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے میں حالیہ ترمیم کا اطلاق کرتے ہوئے بین الاضلاعی حلقے بنائے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان 11 قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے 6 خیبر پختونخوا میں، 3 پنجاب اور 2 سندھ میں ہیں۔صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ ایک سے زائد اضلاع کے علاقوں پر مشتمل ہے۔10 فیصد سے زائد آبادی کے فرق والے حلقوں کی تعداد 2022 کی حلقہ بندیوں سے بھی بڑھ گئی ہے،فافن کا کہنا ہے الیکشن قواعد کو حالیہ ترمیم کے مطابق اپ ڈیٹ نہ کرنے کے باعث آبادی کی عدم مساوات سامنے آئی ہے۔

ایک پوری اسمبلی کے کسی بھی دو حلقوں کے درمیان آبادی کا فرق ہر ممکن حد تک دس فیصد سے کم ہونا چاہئیے۔ فافن کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے سب سے بڑے حلقے NA-39 بنوں کی آبادی 13 لاکھ57 ہزار890 ہے جبکہ سب سے چھوٹے حلقہ این اے ون چترال کی ا?باد 5 لاکھ15 ہزار935 ہے۔این اے 39 کی آبادی این اے ون سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔مجوزہ حلقہ بندیوں پر ووٹروں کی جانب سے زیادہ اعتراضات دائر کیے جائیں گے۔الیکشن کمیشن مجوزہ حلقہ بندیوں پر اعتراضات دائر کرنے کے عمل کو آسان بنائے۔