اسلاموفوبیا اور نسل پرستی: برطانوی سیاست دان کی پارلیمانی پارٹی کی رکنیت معطل

DW ڈی ڈبلیو اتوار 25 فروری 2024 17:40

اسلاموفوبیا اور نسل پرستی: برطانوی سیاست دان کی پارلیمانی پارٹی کی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 فروری 2024ء) برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں یا دارالعوام کے رکن لی اینڈرسن کا تعلق وزیر اعظم رشی سوناک کی کنزرویٹیو پارٹی سے ہے اور وہ ٹوری پارٹی کے پارلیمانی حزب کے ایک سابق نائب سربراہ بھی ہیں۔

لی اینڈرسن نے جمعہ تیئیس فروری کے روز اپنے ایک متنازعہ بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ برطانوی دارالحکومت لندن کے ملکی سطح پر اپوزیشن کی جماعت لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے مسلمان میئر صادق خان اسلام پسندوں (اسلامسٹس) کے کنٹرول میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔

پیرس ایئر پورٹ پر باجماعت نماز کی تصویر، تنازعہ کھڑا ہو گیا

وسطی انگلینڈ کے ایک پارلیمانی حلقے سے ہاؤس آف کامنز کے رکن منتخب ہونے والے لی اینڈرسن کے اس بیان پر خود لندن کے میئر صادق خان نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا تھا جبکہ برطانیہ میں اس ٹوری سیاست دان کے مذکورہ بیان کو نسل پرستانہ سوچ کا مظہر اور اسلاموفوبیا کو ہوا دینے والا موقف قرار دیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

لی اینڈرسن کا معذرت سے انکار

کئی دیگر یورپی ممالک کی طرف برطانیہ میں بھی گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے اسلاموفوبیا اور سامیت دشمنی کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات کی شرح کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے لی اینڈرسن کے اس بیان پر ملک بھر میں سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔

اہم بات یہ ہے کہ لی اینڈرسن نے اپنے اس بیان کے بعد اس پر کسی بھی قسم کی معذرت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر حکمران کنزرویٹیو پارٹی کے پارلیمانی دھڑے کے چیف وہپ نے لی اینڈرسن کی پارلیمانی پارٹی کی رکنیت کل ہفتے کی شام معطل کر دی۔

او آئی سی کا اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی اقدامات کا مطالبہ

پارلیمان میں لی اینڈرسن کی پارٹی رکنیت کی اس معطلی کی آج اتوار کے روز چیف وہپ سائمن ہارٹ کے ایک ترجمان نے بھی تصدیق کر دی۔

ہارٹ نے ہاؤس آف کامنز میں ٹوری پارٹی کے چیف وہپ کی حیثیت سے لی اینڈرسن کی معطلی کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ٹوری پارٹی کے پارلیمانی حزب میں داخلی نظم و ضبط کے ذمے دار وہی ہیں۔

لی اینڈرسن نے کہا کیا تھا؟

لی اینڈرسن نے جمعے کے روز دائیں بازو کے برطانوی نشریاتی ادارے جی بی نیوز چینل پر ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ''اسلام پسند حلقے‘‘ لندن کے میئر صادق خان کو ''اپنے کنٹرول میں لے چکے‘‘ ہیں۔

ساتھ ہی اس رکن پارلیمان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا، ''وہ (میئر صادق خان) تو ہمارے ملکی دارالحکومت کو اپنے ساتھیوں کو دے بھی چکے ہیں۔‘‘

صادق خان لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے برٹش مسلم سیاست دان ہیں، جو 2016ء میں پہلی مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ مغربی دنیا کے کسی بھی دارالحکومت کے میئر منتخب ہونے والے پہلے مسلمان سیاست دان ہیں۔

جرمنی میں اسلاموفوبیا بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، رپورٹ

لی اینڈرسن کا متنازعہ بیان اس قدر سیاسی اور سماجی غم و غصے کا سبب بنا تھا کہ برطانوی مسلمانوں کی ملکی تنظیم نے بھی اسے ''بیزار کن اور انتہاہ پسندانہ‘‘ قرار دیا تھا۔

کئی ٹوری سیاست دان بھی سخت ناراض

لی اینڈرسن کے متنازعہ اور نسل پرساتنہ بیان پر خود ان کی اپنی ٹوری پارٹی کے کئی سرکردہ مسلم اور غیر مسلم رہنماؤں نے بھی سخت تنقید کی ہے۔

پارٹی کے جن سرکردہ رہنماؤں نے اینڈرسن کے بیان کو سخت ناپسند کرتے ہوئے اس کی مذمت کی، ان میں بزنس منسٹر غنی، سینئر رکن پارلیمان اور سابق ملکی وزیر ساجد جاوید اور ٹوری پیئر گیوِن باروَیل بھی شامل ہیں۔

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر، عبادت گاہیں محفوظ نہیں

لی اینڈرسن نے، جو اب برطانوی ایوان زیریں میں آزاد رکن کے طور پر بیٹھیں گے، اعتراف کیا ہے کہ ان کے متنازعہ بیان کی وجہ سے وزیر اعظم رشی سوناک اور ٹوری پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو گئی ہیں، تاہم انہوں نے کسی بھی طرح کی معذرت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

وزیر اعظم سوناک پر دباؤ

برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے اب تک اس معاملے میں خود کچھ بھی نہیں کہا۔ اسی لیے لندن کے میئر صادق خان اور برطانوی لیبر پارٹی کے سربراہ کائر سٹارمر نے سوناک پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خاموشی واضح طور پر ''نسل پرستانہ اور اسلاموفوبیا کے مظہر سیاسی موقف‘‘ کا دفاع کرنے کے مترادف ہے۔

سٹارمر اور خان نے مطالبہ کیا کہ رشی سوناک کو ٹوری پارٹی کے سربراہ کے طور پر بلا تاخیر لی اینڈرسن کے بیان کی مذمت کرنا چاہیے اور یہ واضح کر دینا چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی میں ایسی ''نسل پرستانہ سوچ‘‘ برداشت نہیں کریں گے۔

کائر سٹارمر کے الفاظ میں، ''وزیر اعظم سوناک کو اپنی پارٹی میں انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ صورت حال ٹوری پارٹی کے لیے بھی شرمندگی کا سبب بن رہی ہے اور یوں برطانوی سیاست میں بدترین قوتوں کے حوصلے بھی بلند ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

م م / ع س (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)