جدید طرز تعلیم کے اطلاق اور نوجوان نسل کو جدید مہارتیں سکھائے بغیر ترقی ممکن نہیں، پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین

جمعہ 8 مارچ 2024 13:50

سرگودھا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 مارچ2024ء) جدید طرز تعلیم کے اطلاق اور نوجوان نسل کو جدید مہارتیں سکھائے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن و پرو ریکٹر سپیریئر یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین نے یونیورسٹی آف سرگودھا کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی اینڈ کریمنالوجی کے زیراہتمام”عالمگیریت کی بدولت پاکستانی معاشرہ میں سماجی تبدیلی اور تعلیمی اصلاحات کی ضرورت“ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ریسرچ ایرینا 2024 کے ساتوں روز منعقدہ تقریب میں وہ بطور مہمانِ خصوصی شریک ہوئے جبکہ وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس، سابق وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر، معروف صحافی و کالم نگار نعیم مسعود، سینئر صحافی رضوان رضی، پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر میاں غلام یاسین اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد نے سیمینار میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

پروفیسر ڈاکٹر نظام الدین نے مزید کہا کہ بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کیلئے طلبہ کو چاہیے کہ وہ عملی مہارتیں سیکھیں جب کہ تعلیمی ادارے دوران تعلیم ہی طلبہ کوعملی تجربات کے مواقع فراہم کریں۔ پاکستان کو ایک مربوط اور منظم تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے کہ جو ایک بہتر اور پُرامن معاشرہ کی تشکیل میں معاون ثابت ہو۔ عالمگیریت کے تناظر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ابھر کر سامنے آ رہی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ مصنوعی زہانت کے فائدوں اور نقصانات کو جانچ کر اس کے مثبت پہلووں کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔

نعیم مسعود نے کہا کہ محققین اور سکالرز کو اس معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کے لئے سماجی ربط قائم کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہمیں گلوبلائزیشن کی طرف جانا ہے تو ہمیں اپنے رویوں میں بدلائو لانا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انقلاب ممکن نہیں تو ہمیں ارتقا کا سہارا لینا چاہیے کیونکہ ارتقا کا عمل قوموں کو انقلاب کی دہلیز پر لے جاتا ہے۔

اگر ہمیں حقیقی معنوں میں عالمگیریت چاہیے تو نوجوان نسل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اعلیٰ تعلیم دینا ہوگی۔ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر نے کہا کہ گلوبل ویلج کی صورت اختیار کرنے والی اس دنیا میں اپنی پہچان بنانے کے لئے ہمیں ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ انہوں کہا کہ جامعات قوموں کا رویہ بدلتی ہیں اور قوموں کا رویہ اُن کا مستقبل بدلتا ہے۔

بدلتی دنیا کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات لانا وقت کی ضرورت ہے۔ رضوان رضی نے کہا کہ معاشرے میں علم کی پہلی تبدیلی تب واقع ہوئی جب انسان نے علم کو حافظہ سے نکال کر کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔ علم کے ڈیجیٹلائز ہونے کی وجہ سے ٹیکنالوجی اور مصنوعی زہانت بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے کہا کہ تحقیق کرتے وقت محققین کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا ہو گی کہ تحقیق کا براہ راست فائدہ معاشرہ کو ہو۔

انہوں نے تعلیم میں جدت لانے کے لئے مزید اقدامات کرنے کے عزم کا آعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جامعات کا اصل کام ہی ریسرچ اور دریافت ہے۔ کتاب سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ ہمیں نئے علم کی دریافت کے سفر کو بھی جاری رکھنا ہو گا۔ پروفیسر ڈاکٹر میاں غلام یٰسین نے کہا کہ تعلیم معاشروں کے لئے قدامت پسندی سے جدت تک کے سفر میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں انسان سے زیادہ سکلز کی اہمیت ہے تو ہمیں اپنی سکلز کو بہتر بنانا ہو گا۔ ریسرچ ایرینا کے چھٹے روز شعبہ بائیو ٹیکنالوجی کی جانب سے’’بائیو ٹیکنالوجی میں تازہ ترین رجحانات‘‘ کے موضوع پر سیمینار اورشعبہ نفسیات نے ’’ذہنی صحت کے چیلنجز اور معاصر دنیا‘‘کے عنوان پر ویبینارکا انعقاد کیا گیا جبکہ انسٹیٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن کے زیرِ اہتمام فوڈ، نیوٹریشن اور الائیڈ سائنسز میں درپیش چیلنجز اور مواقعوں پر“ دوسری انٹرنیشنل فوڈ اینڈ نیوٹریشن ریسرچ کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی۔