ٓ پشتون افغان ملت تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں شعبے تنزلی کا شکار ہے، محمد عیسیٰ روشان

بالادست قوم محکوم اقوام کے وسائل لوٹ کر ہر سطح پر ان کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں، نصر اللہ زیرے

ہفتہ 9 مارچ 2024 21:20

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 مارچ2024ء) پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام تعلیمی داخلہ آگاہی مہم کے سلسلے میں تعلیمی مسائل، چیلنجز اور پی ایس او کے کردار کے عنوان کے تحت پریس کلب کوئٹہ میں ایک سیمینار جنوبی پشتونخوا زون کے آرگنائزر لطیف خان کاکڑ کی صدارت میں منعقد ہوا جس سے پشتونخوانیپ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات محمد عیسیٰ روشان، صوبائی صدر نصراللہ خان زیرے، پروفیسر برکت شاہ کاکڑ، صوبائی سیکریٹری اطلاعات زمان خان کاکڑ، محکمہ تعلیم کے آفیسران فیاض احمد، گل کاکڑ اورپشتونخوا ایس او کے ڈپٹی آرگنائزر ڈاکٹر مزمل، ملک شعیب، زوہیب کبزئی اور مامون شعور نے خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض سمیع اللہ اور حمدا للہ شہزاد نے سرانجام دیئے۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پشتون افغان ملت کو تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں درپیش اذیت ناک صورتحال کی بنیادی وجہ ان کی قومی محکومی اور سیاسی، معاشی اور ثقافتی واک واختیار سے محرومی اور ملک میں ایک قوم کی بالادستی ہیجس کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے تنزلی کا شکار ہے اور بالادست قوم محکوم اقوام کے وسائل لوٹ کر ہر سطح پر ان کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں اور ملک میں قوموں کی برابری کی بنیاد پر رضاکارانہ حقیقی پارلیمانی فیڈریشن کے قیام، آئین وقانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اقوام کے وسائل پر ان کا کنٹرول تسلیم کرنے سے انکار کی پالیسی اور زندگی کے ہر شعبے میں سماجی انصاف پر مبنی نظام کے قیام کے برعکس اقدامات نے محکوم اقوام اور ملک کے مظلوم عوام کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے اور اب موجودہ انتخابات میں ہونے والی بدترین دھاندلی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سیٹوں کی خرید وفروخت کے ذریعے جعلی نمائندوں کے ذریعے جعلی حکومتوں کے قیام کا مقصد محکوم اقوام کے وجود اور ہر قسم کے حقوق واختیارات سے انکار کی پالیسی اپناتے ہوئے نام نہاد جمہوریت کے نام پر سول مارشل لا نافذ کرکے رکھ دی ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال جعلی طور پر منتخب ہونے والے نمائندے اور انکے پارٹیوں کے رہنما ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف عہدوں کیلئے اپنی مرضی کے افراد منتخب کرنے کے اختیارات سے بھی محروم ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس دو قومی صوبے میں سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات، اساتذہ اور ملازمین کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے تعلیم کیلئے سب سے زیادہ بجٹ رکھنے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے مسائل حل کرنے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے اقدامات کی بجائے محکمہ تعلیم کو بدترین تباہی و بربادی کا سامنا ہے سکولوں اور کالجوں میں بچوں، بچیوں کی بہت بڑی تعداد کے برعکس اساتذہ کی کمی اور سہولیات کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہر ضلع میں موجود ہیں جبکہ سفارشی اور رشوت خوری کی کلچر نے اساتذہ کی غیر حاضری اور دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دینے کی بجائے شہری علاقوں میں جمع ہو کر اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنا عام معمول بن کر رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقل کا رحجان اب بھی موجود ہے معیاری تعلیم دینے کی بجائے رٹہ لگانے کے ذریعے ڈگریاں حاصل کرنے کا کوئی پیدا نہیں اور ٹیکنکل تعلیم پر توجہ نہیں دی جارہی میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور یونیورسٹی کی سطح تک امتحانات کے دوران اور امتحانات کے بعد سفارشی کلچر کے ذریعے نمبرز حاصل کرنا معمول بن گیا ہے اور ان تمام سازشوں کا مقصد محکوم اقوام کے نئی نسل کو تعلیم سے دور رکھ کر انہیں مزید محکوم رکھنے اور ان کے وسائل لوٹنے اور ان پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کی استعماری ریاست کی استعماری پالیسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزین پشتونخوا وطن کے تمام طلبا وطالبات ، اساتذہ کو درپیش مسائل و مشکلات کو مد نظر رکھ کر ان کے حل کیلئے بھرپور مہم چلائیگی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے خلاف ہونے والے سازشوں اور ان اداروں میں مسلط مافیاز کے منفی کردار کو عوام پر اشکارا کرتے ہوئے تعلیمی معیارد کی بہتری کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریگی اور سیمینار میں مختلف قراردادیں منظور کی گئی۔