ٓاسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کیس میں ٹرائل پر تحفظات کا اظہار کردیاگیا

'شوکت صدیقی کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات نہ کیے جانے پر بھی اعتراضات اٹھا ئے گئے ،جنرل( ر) فیض حمید پر لگائے گئے سنگین الزامات پربھی بات کی گئی

جمعہ 22 مارچ 2024 22:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کیس میں ٹرائل پر تحفظات کا اظہار کیاگیاہے ساتھ میں شوکت صدیقی کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات نہ کیے جانے پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔جنرل( ر) فیض حمید پر لگائے گئے سنگین الزامات پربھی بات کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے جاری کردہ اپنے فیصلے میں کہاہے کہ بلاشبہ شوکت صدیقی نے فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے، شوکت صدیقی کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، عدالت نے اس خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو نوٹس جاری کیے جن پر الزامات لگائے گئے، سب نے الزامات سے انکار کیا، یہ ضروری تھا کہ جوڈیشل کونسل ان الزامات کی تحقیقات کرتی کہ کون سچ بول رہا ہے، شوکت عزیز صدیقی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا، جوڈیشل کونسل کی کاروائی میں ہمیشہ شواہد ریکارڈ کیے جاتے رہے، مظاہر نقوی کیس میں 14 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے اور شواہد پیش کیے گئے، اس کیس کے دو پہلو ہیں، پہلا پہلو عدلیہ کی آزادی، دوسرا بغیر کسی خوف یا لالچ کے آزادی کے ساتھ فیصلے کرنا اور عدلیہ کی خود احتسابی، کسی جج کو شفاف ٹرائل کے بغیر ہٹانا عدلیہ کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے، عدالت کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ درخواستیں مفاد عامہ کے تحت قابلِ سماعت ہیں، عدلیہ کی آزادی کے بغیر بنیادی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شوکت صدیقی نے اپنے حلف کی کیسے خلاف کی تھی، انکوائری کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزامات جھوٹے تھے، ججوں کا حلف انہیں بار ایسوسی ایشن یا کسی عوامی اجتماع میں تقریر کرنے سے نہیں روکتا، فیصلے میں 22 جولائی 2018 کے آرمی چیف کے خط اور 24 جولائی 2018 کے وفاقی حکومت کے خط کا حوالہ دیاگیاہے جس میں بتایاگیاہے کہ آرمی چیف اور وفاقی حکومت کی جانب سے دو شکایات بھیجی گئیں جن میں الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا، شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات اس لیے بھی ضروری تھیں کیونکہ آرمی چیف اور وفاقی حکومت کو ان الزامات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں تھا، وہ وفاقی حکومت جو 24 جولائی 2018 کے خط میں یہ کہہ رہی تھی کہ الزامات کا تعین ہونا چاہیے اسی حکومت نے 10 جون 2021 کو ایک بیان جمع کروایا کہ یہ الزامات ہی بے بنیاد ہیں، اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کروائے گئے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شوکت صدیقی کے الزامات بے بنیاد تھے۔