ماضی میں دفن تہذیبوں کو منظر عام پر لانے کا ہنر آرکیالوجی

DW ڈی ڈبلیو اتوار 24 مارچ 2024 21:00

ماضی میں دفن تہذیبوں کو منظر عام پر لانے کا ہنر آرکیالوجی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مارچ 2024ء) اَرکیالوجی نے مٹی میں دَبی ہوئی اور روپوش تہذیبوں کو باہر نکالا تو قدیم عہد کی معلومات دنیا کے سامنے آئیں۔ اَرکیالوجی کے ماہرین نے سائنس اور سماجی علوم کی مدد سے ماضی کے کھنڈرات سے جو کچھ برآمد ہوا تھا اُس کی بنیاد پر قدیم اقوام کے رہن سہن، عادات، رَسم و رواج کے بارے میں تحقیق کی اور اُسے زمانہ حال کے مسائل سے مِلا کر دیکھا کہ ہم ماضی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔

ماہرین نے اِس پر توجہ دی کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے تہذیبوں پر کیا اَثرات ہوئے اور اِس کے باشندوں نے مسائل کا کیا حل نکالا۔ مثلاً جب مایا تہذیب کے علاقے میں پانی کی کمی ہوتی تھی تو اس کے حکمراں پانی کی تقسیم کا نظام بناتے تھے۔

(جاری ہے)

لیکن جب خشک سالی ہو جاتی تھی تو یہ لوگ ہجرت کر کے ذرخیز علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ اس عمل کی بنیاد پر اُنہوں نے اپنی تہذیب کو برقرار رکھا۔

آب و ہوا کے علاوہ جنگوں، حملہ آوروں کی تباہی و بربادی نے بھی شہروں اور آبادیوں کو مُتاثر کیا لیکن انسان میں یہ توانائی ہے کہ اُس نے دوبارہ سے شہر تعمیر کیے اور اُنہیں آباد کیا۔ اَرکیالوجی کے ماہرین نے ملنے والی اشیاء سے قدیم لوگوں کی تہذیب کا معیار مُقرر کیا۔ مثلاً اُنہوں نے میسوپوٹامیہ میں مٹی کی تختیوں پر لکھی تحریروں سے اُن کی تاریخ اور ادب کا اندازہ لگایا، جیسے گلگامیش کی داستان اور طوفان نُوح کے بارے میں معلومات۔

اَرکیالوجی کی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قدیم تہذیبوں میں اَمیر اور غریب کے درمیان کیا فرق تھا۔ نچلے طبقے کی اکثریت حکمراں طبقوں کی خدمت کرتی تھی۔ جب مصر کے بادشاہ اخناطون کے شہر 'اَمرنا‘ میں غریبوں کے قبرستان میں برآمد شدہ ڈھانچوں پر تحقیق کی تو پتہ چلا کے اس عہد کے مزدُوروں کی اوسطاً عمر 30 سال تھی، ناقص کھانا ہوتا تھا۔

بوجھ اُٹھانے کی وجہ سے کمر میں بَل پڑ گئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دو طبقات میں کتنا بڑا فرق تھا۔

اَرکیالوجی یہ بھی بتاتی ہے کہ عدم مساوات تھی۔ اُمراء اور عوام کی رہائشیں علیحدہ ہوتیں تھیں۔ حکمرانوں کو الٰہی قوّت مِلتی تھی، جبکہ رعایا کا کام وفاداری سے اُن کی خدمت کرنا تھا۔

آثار قدیمہ کی دریافتوں نے اُن فنون اور کاریگری کے ہُنر کو جس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔

دریافت کر کے اُنہیں دوبارہ سے قابل عمل بنایا۔ عمارتوں کی تعمیر کے وہ اُصول جو حیران کُن تھے جیسے اہرام مصر۔ اِن پر تحقیق کر کے تعمیر کے علم کو آگے بڑھایا۔ جَڑی بوٹیوں سے بیماریوں کا علاج کیا۔ لہٰذا ماضی کے آثار اور اُن کی دریافتوں نے تہذیبوں کے تسلسل کو جاری رکھا۔ لیکن جہاں اَرکیالوجی نے قدیم علوم کو روشناس کرایا وہیں اس کی دریافتوں نے قوموں میں قوم پرستی کے جذبات کو پیدا کیا۔

1780ء کی دہائی میں جب پومپے شہر کو دریافت کیا گیا تو اس میں ملنے والی اشیاء نے رومی سلطنت کی تہذیب کو اُجاگر کیا۔ 1798ء میں جب نیپولین نے مصر پر حملہ کیا تو اُس کے ساتھ آئی ہوئی فرانسیسی ٹیم نے مصر کی تہذیب پر تحقیق شروع کی اور اُس کے نوادرات کو جمع کرنا شروع کیا۔ لیکن جب انگریز نیپولین کے تعاقب میں آیا تو اُس نے مصر چھوڑ دیا اور مصر کے نوادرات کو فرانسیسیوں اور انگریزوں نے آپس میں تقسیم کر لیا۔

اب یہ انگلینڈ کے برٹش میوزیم اور فرانس کے لُوور میوزیم میں موجود ہیں۔

اِس کے بعد سے اَرکیالوجی قوم پرستی کا شکار ہو گئی۔ خاص طور سے یورپی اقوام نے اپنی تہذیبی برتری کو کلونیل ازم کے لیے استعمال کیا۔ سترہویں صدی میں سفید فام نسل پرستی کا نظریہ اُبھرا۔ جلد کے رنگ کی بنیاد پر قوموں کو اعلٰی اور اَدنٰی میں تقسیم کیا گیا۔ سفید فام نسل کو برتر قرار دے کر اُسے یہ حق دیا گیا کہ وہ دوسری نسلوں پر حکومت کرے۔

جرمنی کے ایک فسلفی نے جرمنوں کے بارے میں یہ فیـصلہ دیا کہ اُن کا تعلق اَریا نسل سے ہے اور ماضی میں اُنہوں نے یورپ پر حکومت کی۔ نازی حکومت نے اس فلسفے کو تسلیم کرتے ہوئے مشرقی یورپ اور رُوس پر حکومت کرنے کے لیے یہی دلیل استعمال کی۔

یورپ کے مارہرین اَرکیالوجی نے کلونیل دور میں دوسری قوموں کے تاریخی کردار اور ماضی کی اہمیت کو رَد کر دیا۔

جیسے لاطینی امریکہ میں تین بڑی تہذیبیں تھیں۔ مایہ، اِنکا اور اسٹیک۔ ہسپانوی حملہ آوروں نے اِن کی اہمیت سے اِنکار کر دیا۔ کیونکہ اُنہیں یہ خوف تھا کہ اگر یہ تہذیبیں مغربی تہذیب کے مقابلے میں برتر ثابت ہوئیں تو اُن کے حملے اور قبضے کا جواز نہ رہے گا۔

یہی صورتحال افریقہ کی تھی۔ جب سابق روڈیشیا یا موجودہ زمبابوے میں ایک عظیم سلطنت کے آثار ملے تو اہل یورپ نے کہا کہ یہ افریقیوں کی تخلیق نہیں ہے بلکہ افریقہ سے باہر سے آنے والی کسی قوم کی ہے، جس نے اسے تعمیر کیا تھا۔

لیکن جب ایک خاتون اَرکیالوجسٹ نے تحقیق اور دلائل سے یہ ثابت کیا کہ یہ قدیم سلطنت افریقیوں کی تھی، اور اُس کے آثار بھی انہی لوگوں کے ہیں۔ اِس پر برطانوی حکومت نے اُسے خاموش رہنے کو کہا۔ مگر وہ اپنی دلیل پر قائم رہی جسے بعد میں دوسرے اَرکیالوجی کے ماہرین نے تسلیم بھی کیا۔

اَرکیالوجی کی دریافتوں نے میوزیم کے ادارے کو قائم کیا۔

قوموں نے نہ صرف اپنے ماضی کے نوادرات کو میوزیم کی ذینت بنایا بلکہ لُوٹ مار کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں ایشیا اور افریقہ سے ملنے والے نوادرات کو سَمگل کر کے یورپ بھیجا گیا۔ برطانیہ کے لارڈ ایلگن نے ایتھنز کی عمارت پینتھیونز سے سنگ مرمر کا تعمیر شدہ مندر اُکھڑوا کر انگلستان لے آیا۔ تا کہ اُسے اپنے گھر کی زینت بنائے۔ بعد میں یہ عمارت برٹش میوزیم کو دے دی جو آج بھی وہاں موجود ہے۔

اس وقت امریکہ اور یورپ کے میوزیم ایشیا اور افریقہ کی نوادرات سے بھرے پڑے ہیں۔ اس کی وجہ سے ماضی کی تاریخ پر بھی ان کا تسلط ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی حفاظت کر سکیں اس لیے اہل یورپ نے انہیں محفوظ کر رکھا ہے۔

اب ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کے پاس ماضی کی عمارتیں اور کھنڈرات رہ گئے ہیں۔

اُن کے آثار بھی دریافت ہونے کے بعد آہستہ آہستہ بِکتے جا رہے ہیں۔ جب اقوام حال کے مسائل میں گرفتار ہو جائیں تو اُن کے لیے ماضی کا بوجھ اُٹھانا مشکل ہو جاتا ھے۔

مزید تفصیل کے لیے Brian M. Fagan اور Nadia Durrani کی کتاب "Bigger Than History” پڑھیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔