صحافیوں کیخلاف نوٹسز کیس، میڈیا اورصحافیوں کے ساتھ جوہوا اس پرتو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں،چیف جسٹس کے ریمارکس

گزشتہ درخواست پر فیصلہ ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی

Faisal Alvi فیصل علوی پیر 25 مارچ 2024 13:00

صحافیوں کیخلاف نوٹسز کیس، میڈیا اورصحافیوں کے ساتھ جوہوا اس پرتو کتابیں ..
لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔25 مارچ2024 ء) سپریم کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائرعیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ پاکستان میں میڈیا اورصحافیوں کے ساتھ جو ہوا اس پرتو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل منصور عثمان اور وکیل بیرسٹرصلاح الدین روسٹرم پر آئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگرگزشتہ درخواست پر فیصلہ ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، جو لوگ پیچھے ہٹ گئے انکی بھی کمزوری ہے۔ ہم نے 2021 میں ازخود نوٹس لیا تھا، اس وقت صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ دونوں معاملات کی اپنی اپنی سنگینی ہے۔

(جاری ہے)

اِس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دونوں کو ایک جیسا سنگین نہیں کہہ سکتے، ایف آئی اے نوٹس مکمل غیر قانونی بھی ہو چیلنج ہو سکتے ہیں، الزام تو لگایا جاتا ہے مگر عدالت پیش ہو کر موقف نہیں دیا جاتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت یہ معاملہ2 رکنی سے 5 رکنی بنچ کے سامنے چلا گیا، کہا گیا صرف چیف جسٹس سوموٹو نوٹس لے سکتے ہیں۔ وہ معاملہ ایف آئی اے نوٹس ملنے سے زیادہ سنگین تھا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ایڈووکیٹ حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ میڈیا ریگولیشن کی بات کر رہے ہیں، ہم عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اس عدالت کو کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کیا آپ کا ’فریڈم آف پریس‘ کا کیس ہے یا کوئی اور ایجنڈا ہے؟انہوں نے استفسار کیا کہ عمران شفقت کے خلاف ایف آئی آر کس حکومت کے دور میں ہوئی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران شفقت نے کوئی سنجیدہ جرم نہیں کیا، میرے خیال میں اس کیس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کوی سنجیدہ جرم تھا یا پھرصرف تنگ کرنے کیلئے ایف آئی آرکاٹی گئی۔ لوگ ماضی کو جلد بھول جاتے ہیں۔ایف آئی اے نے صحافی عمران شفقت اور عامر میر کے خلاف مقدمات واپس لینے کی یقین دہانی کرا دی۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایف آئی اے انکوائری درج کرنے کے بعد گرفتاری کا اختیاررکھتی ہے، اس اختیارکو میڈیا اورصحافیوں کی آوازدبانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا ہم کسی ایف آئی آر کو درج ہونے سے روک سکتے ہیں؟ ایف آئی آرغلط ہوسکتی ہے مگراسے کیس ٹو کیس ہی دیکھا جائے گا۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی ۔