یونیورسٹی آف مکران کا بلوچی ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے وضاحتی بیان حقیقت کے بر خلاف ہے، متاثرہ طلبا شعبہ بلوچی ڈپارٹمنٹ

جمعہ 5 اپریل 2024 22:07

پنجگور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اپریل2024ء) یونیورسٹی آف مکران کا بلوچی ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے وضاحتی بیان حقیقت کے بر خلاف ہے، جو رولز بلوچی ڈپارٹمنٹ کیلئے یونیورسٹی نے رائج کئے ہیں وہ باقی ڈپارٹمنٹس میں لاگو نہیں ہورہے صرف بلوچی ڈپارٹمنٹ پر ان رولز کا اطلاق بلوچی زبان اور بلوچی زبان کے اسکالرز کے ساتھ زیادتی ہے۔متاثرہ طلبا شعبہ بلوچی ڈپارٹمنٹ نے اپنے ایک بیاں میں کہا ہے کہ یونیورسٹی آف مکران کے وائس چانسلر صاحب نے یونیورسٹی میں یہ کہہ کر بلوچی ڈپارٹمنٹ بند کیا کہ ایچ ای سی رولز کے مطابق BS پروگرامز میں داخلوں کیلئے FA/Fsc کا پچھلے 03 سالون کے دوران پاس کرنا ضروری ہے جبکہ بلوچی میں داخلہ لینے والے طلبا کا ایف اے یا ایف ایس سی تین سال سے پرانا ہے اس لیے یہ ڈپارٹمنٹ بند کردیا گیا جبکہ حقیقت ذیل میں واضح کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اول تو یونیورسٹی آف مکران میں زیر تعلیم اکثریت بلکہ 80 فیصد ان طلبا کی ہے جنہوں نے تین سال سے پہلے بارہویں جماعت پاس کیا ہے لیکن گنجائش یا سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اعلی تعلیم حاصل نہ کرسکے اور یونیورسٹی کے قیام کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف مکران میں داخلہ لیا جن کے ایف اے اور ایف ایس سی کئی سال پرانے ہیں مگر ان کے داخلوں کیلئے یونیورسٹی نے کوئی اعتراز نہیں کیا اگر باقی شعبوں میں پانچ دس سال پرانے طلبا کو داخلہ دیا جاسکتا ہے تو صرف بلوچی کیلئے تین سال کے عرصے میں ایف ایس سی کرنے کا رول کیوںدوئم ایچ ای سی کے رولز کے مطابق بلوچی ڈپارٹمنٹ کے ایڈمیشن کرائیٹریا کا فیصلہ یونیورسٹی آف مکران میں بلوچی ڈپارٹمنٹ کے اکیڈمک کونسل کرسکتا ہے ناکہ اخبار میں اشتہار دینے والا ایک کلرک۔

۔ مگر یونیورسٹی میں بلوچی ڈپارٹمنٹ کا نا اکیڈمک کونسل بنایا گیا ہے، نا بلوچی کیلئے کورس ڈیزائن کیا گیا ہے اور نا ایڈمیشن سے پہلے بلوچی کیلئے کسی فیکلٹی ممبر کو تعینات کیا گیا ہے اس طرح صرف ایک بیان سے بلوچی کو بند کرنے کا اعلان کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور انتظامیہ کی بلوچی زبان کے ساتھ سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہی3. جامعات میں کسی بھی شعبے میں داخلے کیلئے فرش طلبا کو ترجیح دینے کا کرائیٹیریا اس وقت لاگو ہوتا ہے جب اس شعبے میں طلبا کی تعداد زیادہ ہو وہاں پر پرانے پاس آٹ طلبا کے بجائے فرش طلبا کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن بلوچی میں داخلے لینے والوں کی کل تعداد 25 تک ہے یہاں فرش طلبا کا کرائیٹیریا لاگو کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے جو بلوچی زبان کے ساتھ زیادتی کے علاوہ کچھ بھی نہیںیونیورسٹی آف مکران میں تین سال والا کرائیٹیریا نا ایڈمیشن کے اشتہار میں ظاہر کیا ہے، نا ایڈمیشن کے دورن طلبا کو اس رول کے بار میں بتایا گیا ہے نا ٹیسٹ اور انٹرویو کے دوران طلبا کو آگاہ کیا ہے بلکہ سارے مرحلے پورے کرنے کے بعد اچانک سے یہ اعلان یونیورسٹی انتظامیہ کے سنجیدگی کیلئے بڑا سوالیہ نشان ہی یونیورسٹی کے پاس اپنا بنایا گیا پراسپیکٹس اب تک موجود نہیں ہے جس میں ایڈمیشن کے حوالے سے تمام رولز موجود ہوتے ہیں جو ہر یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبا کو دیا جاتا ہے جس سے ہر طالب علم کو آسانی سے معلوم ہوتا ہے کہ کس شعبے میں داخلہ لینے کی اہلیت کیا ہے اس پراسپیکٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے داخلوں کے حوالے سے اب تک پالیسی نہیں بنائی ہے تو بلوچی کا بھی یہی حال ہے کہ بنا جامع پالیسی کے ڈپارٹمنٹ کھولا گیا اور بنا پالیسی کے بند کردیا گیا مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں تین سال پہلے ایف ایس سی مکمل کرنے والے طلبا اب بھی زیر تعلیم ہیں مگر صرف بلوچی زبان پر یہ رول لاگو کیا جارہا ہے حالانکہ بحیثیت مادری زبان بلوچی کیلئے اور بھی ریلیکسیشن پیدا کرنے کی ضرورت تھی مگر الٹا ڈپارٹمنٹ کو بند کردیا گیا جس سے بلوچی زبان کو پڑھنے کی حوصلہ شکنی ہوگئی ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرلے اور ادارے کو ذاتی مرضی و منشا کے بجائے جامع پالیسی کے تحت چلائے ورنہ ادارہ عوام میں اپنا اعتماد کھو دے گا۔

متعلقہ عنوان :