اس سال عید پر دعوت ہوگی ‘نہ ہی کوئی ملنے آئے گا‘خاندان کے تمام افراد جانیں گنوابیٹھے ہیں.فلسطینی بچی

ہسپتال میں دو میزائل آ گرے میں سو کر اٹھی تو میرے خاندان کے ٹکڑے ہو چکے تھے ‘ جنگ سے قبل والدین کے ساتھ عید کے لیے کپڑے خریدا کرتی تھیں.الاہلی ہستپال میں پورا خاندان کھونے والی لیان کی رولا دینے والی باتیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 9 اپریل 2024 17:45

اس سال عید پر دعوت ہوگی ‘نہ ہی کوئی ملنے آئے گا‘خاندان کے تمام افراد ..
غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 اپریل۔2024 ) اس سال عید پر کوئی دعوت ہوگی ‘نہ ہی کوئی ملنے آئے گاالاہلی ہستپال میں پورا خاندان کھونے والی لیان اور ان کی بہن اپنے خاندان میں زندہ بچ جانے والے واحد فرد ہیں غزہ کے الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی حملے میں 35 افراد شامل تھے جن میں لیان کے پانچ بہن، بھائی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے.

اس رات کے بارے میں بات کرتے ہوئے لیان کہتی ہیں کہ ہمارے خاندان کو ابھی ہسپتال پہنچے ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ہم پر دو میزائل آ گرے میں سو کر اٹھی تو میرے خاندان کے ٹکڑے ہو چکے تھے غزہ کے ہسپتال پر ہونے والے اس حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے. اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گرہ اسلامک جہاد نے حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا تھا لیان اب جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں اپنی ایک خالہ اور کزن کے ساتھ ایک جھونپڑی میں مقیم ہیں ان کا کہنا ہے کہ جنگ سے قبل لیان اپنے والدین کے ساتھ عید پر پہننے کے لیے کپڑے خریدا کرتی تھیں، مقامی علاقوں میں ”مامول“ کے نام سے مشہور بسکٹ بنایا کرتی تھیں اور خاندانی دعوتوں کا ل±طف اٹھایا کرتی تھیں.

برطانوی جریدے نے ایک مضمون میںکہا کہ لیان کہتی ہیں کہ اس برس اب کوئی دعوت نہیں ہو گی اس عید پر ہم سے ملنے کوئی نہیں آئے گاغزہ میں جنگ کے باعث لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور پیسوں کی شدید قلت ہے، اس کے باوجود بھی لیان کے 24 سالہ کزن علی ان کی اور ان کی 18 ماہ کی بہن کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور انھیں اپنی استطاعت کے مطابق کپڑے اور کھلونے دِلانے کی کوشش کر رہے ہیں.

لیان کے کزن اپنے خاندان کے 43 افراد کے ہمراہ غزہ کے علاقے زیتون میں ایک بلڈنگ میں رہا کرتے تھے اور اب اس خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد جنوبی غزہ میں ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں. لیان کی طرح ان کے 14 برس کے کزن محمود بھی ان بچوں میں شامل ہیں جنہیں غزہ میں جاری جنگ نے یتیم کردیا ہے محمود کے دونوں والدین اور ان کے بہن، بھائی بھی الاہلی ہسپتال پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے بم دھماکے میں وہ اس لیے بچ گئے کیونکہ وہ اپنے خاندان کے لیے پانی لینے باہر گئے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

وہ اس رات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو میں نے سب کو مردہ پایا جنگ کی وجہ سے یہ عید دیگر عیدوں کی طرح نہیں ہم نے اپنے پورے خاندان کو کھو دیایہ الفاظ ہیں 11 برس کی لیان کے جو جنگ سے متاثرہ فلسطینی شہر رفح کی رہائشی ہیں ایک ایسے وقت میں جب د±نیا بھر کے مسلمان عیدالفطر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، رفح کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان کی عید کی خوشیاں چھین لی گئی ہیں بچوں کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کی بے گھر آبادی میں ایک فیصد بچے ایسے ہیں جو یتیم ہو چکے ہیں یا پھر اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں بچا.

اقوامِ متحدہ کے ادارے ”یونیسیف“ کے مطابق غزہ میں ایسا کوئی کیمپ نہیں جہاں موجود کسی بچے نے اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو نہ کھویا ہوفلسطین کے ایک ادارے کے مطابق غزہ میں اس وقت 43 ہزار بچے ایسے ہیں جو دونوں والدین میں سے کسی ایک یا دونوں سے محروم ہیں. عام حالات میں عید کے موقع پر پرتعیش دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انواع اقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں لیکن جنگی حالات میں غزہ کے بچوں کے پاس صرف ماضی کی یادیں ہی بچی ہیں عید کے موقع پر غزہ کے دسترخوانوں پر گوشت سے بنی ڈش سوموکیا‘ اور نمکین مچھلی ’فسیخ‘ لازمی سجی ہوتی تھیں لیکن خوشی کے اس تہوار پر بنائے گئے بسکٹ بچوں اور بڑوں کی توجہ کا خاص مرکز ہوا کرتے تھے.

غزہ کی پٹی پر اس وقت تقریباً 17 لاکھ بے گھر افراد انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کھانے، پینے کے لیے ان کا انحصار صرف اور صرف بیرونی امداد پر ہے کیونکہ ان کے علاقوں میں کھانا اور پانی تقریباً ناپید ہو چکا ہے اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے امدادی سامان غزہ نہیں پہنچ پارہا.