حکومت ہیموفیلیا کے مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات کرے،ڈاکٹر ثاقب انصاری

منگل 16 اپریل 2024 21:25

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2024ء) معروف ماہرِ امراضِ خون اور عمیر ثنا فانڈیشن کے صدر ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے کہا ہے کہ ہیمو فیلیا ایک موروثی بیماری ہے،پاکستان میں پندرہ سے بیس ہزار بچے اس مرض کا شکار ہیں، ہیموفیلیا کی روک تھام کے لیے حکومت ترجیحی بنیادوں پر مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات کرے۔

مرض کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے، پاکستان میں یکساں محفوظ خون جوکہ ہیپاٹائٹس بی،سیHivایڈزSyphilis اور ملیریا جیسی مہلک بیماریوں سے پاک ہو کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہیمو فیلیا کے کے عالمی دن کی مناسبت سیپاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن ،چلڈرن ہسپتال اور عمیر ثنا فانڈیشن کے اشتراک سے چلڈرن ہسپتال میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

سیمینار سے ڈاکٹر مصباح منیر،ڈاکٹر کلیم خان،ڈاکٹر ریحان،ڈاکٹر ارم،افشین ذیشان اور دیگر نے خطاب کیا۔اس موقع پر پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک تھے۔ڈاکٹر ثاقب انصاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جسے عام اصطلاح میں خون بہنے کی بیماری کہاجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجودخون جمانے والے ذرات یعنی خاص پروٹین جو کہ جگر میں بنتے ہیں، میں اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی چوٹ یا زخم لگ جائے ،تو خون رکنے یا جمنے میں کافی وقت لگتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانیکے نتیجے میں موت کے خدشات بڑھ جاتیہیں ۔

بیماری کی شدت میں کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہو نے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریبا چار لاکھ ہے ،لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کی تشخیص نہیں ہوپاتی یا وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں سِرے سیعلاج کی سہولت ہی میسر نہیں ہوتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ پندرہ سے بیس ہزار بچے اس مرض کا شکار ہیں۔

صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچے مرض سے متاثر ہیں،مگرالم ناک صورت ِحال یہ ہے کہ ملک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سیمتاثرہ بچوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ڈاکٹر مصباح منیر نے کہا کہ ہیمو فیلیا میں سب سے اہم اس کی بروقت تشخیص ہے،بروقت تشخیص کے ساتھ علاج شروع کردیا جائے تواس کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں،اگر مریض کی مسلسل بلیڈنگ ہورہی ہو اور وہ مسلسل مختلف ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہا ہو تو اس سے علاج میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر کلیم خان نے کہا کہ تھیلے سیمیا کے بچوں کی طرح ہیمو فیلیا کے بچے بھی خاص توجہ کے محتاج ہوتے ہیں،اگر مریض کے مسلسل خون نکل رہا ہو تو پہلا کام اس کا خون روکنا ہے۔ڈاکٹر ریحان نے کہا کہ ہیمو فیلیا کے حوالے سے پہلے آگاہی کم تھی مگر خوش آئند امر یہ ہے کہ اب عوام میں اس حوالے سے آگاہی بیدار ہور ہی ہے۔ڈاکٹر ارم نے کہا کہ ہیمو فیلیا کے مریضوں میں لگایا جانے والا فیکٹر ایمرجنسی میڈیسن ہے اور جس کی فراہمی کے لیے ہم لوگ مستعد رہتے ہیں۔افشین ذیشان نے کہا کہ ہیمو فیلیا کے مریضوں کو خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے،ان مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کی کانسلنگ کی بھی ضرورت پیش آتی ہے۔