طالبان رجیم، افغانستان میں آزادی صحافت پر وار

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کو بے انتہا پابندیوں اور مشکلات کا سامنا صحافی برادری کے لیے افغان سرزمین پر حقائق تک رسائی اور معلومات کی فراہمی ایک کٹھن مرحلہ بن گیا

جمعرات 18 اپریل 2024 20:35

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2024ء) طالبان رجیم، افغانستان میں آزادی صحافت پر وار ، اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کو بے انتہا پابندیوں اور مشکلات کا سامنا ، صحافی برادری کے لیے افغان سرزمین پر حقائق تک رسائی اور معلومات کی فراہمی ایک کٹھن مرحلہ بن گیا ، صحافت افغان سرزمین پر ایک مذاق بن کر رہ گئی جبکہ شعبہ صحافت افغانستان میں ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے صحافتی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے، صحافیوں کو طالبان قیادت پر تنقیدی مواد شائع کرنے کی صورت میں گرفتاری اور لائسنس منسوخی کی دھمکیاں دی گئیں ، 2021 میں افغانستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 122ویں نمبر پر تھا جو 2023 میں 156ویں نمبر تک پہنچ گیا، اپریل 2023 کے بعد سے خواتین صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی، 2023 میں یونسکو نے افغانستان میں متعدد صحافیوں کی ہلاکت پر رپورٹ شائع کی ، طالبان کی جانب سے متن کو نشر یا شائع کرنے سے قبل جائزہ لینے کی مشروط اجازت رکھی گئی، مارچ 2022 میں وائس آف امریکہ کی نشریات پر قومی پریس قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کی مد میں پابندی لگائی گئی، عالمی میڈیا کے مطابق طالبان کی جانب سے افغانستان کی عوام پر اپنے ظلم و بربریت کے خلاف بولنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا، طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے یو این ایچ سی آر کے تحت کام کرنے والے دو غیر ملکی صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا، دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حال ہی میں طالبان نے اسلامی اور قومی اقدار کو نظر انداز کرنے پر افغانستان میں دو ٹی وی چینلز، نور ٹی وی اور بریا ٹی وی چینلز کی نشریات کو معطل کر دیا، بی بی سی کے مطابق طالبان کی جانب سے بی بی سی کو مواد نشر نہ کرنے کے حکم کے بعد پروگرامنگ بند کر دی گئی، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے مطابق اگست 2021 سے پہلے افغانستان میں 90 سے زائد اخبارات میں سے صرف 11 فعال رہ گئے ہیں، 2023 میں افغان طالبان نے پاکستانی صحافی، انس ملک کو اغوائ کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جو طالبان کی حکومت مکمل ہونے کے پہلے سال کی کوریج کر رہا تھا، ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے، میڈیا ورکرز کی کل تعداد میں نصف سے زیادہ کمی آئی ہے جبکہ خواتین صحافیوں کے ایک چوتھائی حصے میں سے صرف 15 فیصد باقی رہ گئی ہیں، گزشتہ تین سالوں میں آزاد میڈیا اور آزادی اظہار کو خطرناک حد تک نقصان پہنچا ہے، طلوع نیوز کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 270 سے زائد میڈیا تنظیموں نے اپنا کام معطل کر دیا ہے، سال 2022 میں چھ ماہ میں ہی آزادی صحافت کے 75 سے زائد واقعات درج کیے گئے جن میں 33 صحافیوں کی گرفتاریاں اور 42 میڈیا اہلکاروں کو حراساں کرنے کے واقعات شامل ہیں، سال 2023 میں افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد اور ان کی حراست کے 108 واقعات درج ہوئے، رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 50 فیصد سے زائد میڈیا چینلز بند ہو گئے ہیں، افغانستان صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ، عالمی اداروں کو چاہیے کہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے استحصال پر نوٹس لیتے ہوئے موثر عملی اقدامات کریں۔