غ*پانچ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج

جمعہ 19 اپریل 2024 21:35

ٰلاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 اپریل2024ء) پانچ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج کردیئے گئے، درخواست میں پانچ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز، چاروں صوبوں او روفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے،مفاد عامہ کی آئینی درخواست میںمیاں دائود ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان صوابدیدای اختیارات کا غیرآئینی استعمال کر تے ہیں، ہائیکورٹس کے اکثر چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل سرکاری خزانہ بادشاہوں کی طرح لٹا تے ہیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نے ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل اختیارات کے ناجائز استعمال بدترین مثالیں قائم کیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بہترین کارکردگی کے نام پر سینکڑوں ملازمین کو غیرقانونی ایڈوانس انکریمنٹس دیئے،لاہور ہائیکورٹ کے افسران اور اہلکاروں میں 6 جولائی2021 سے دو ایڈوانس انکریمنٹس دیئے گئے، عدالتی تاریخ میں آج تک کسی چیف جسٹس کے سٹاف کو اڑھائی برس کی مدت پر مشتمل ایڈوانس انکریمنٹ دینے کی مثال نہیں ملتی، سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل دیگر سینکڑوں ملازمین کو غیرقانونی طور پر ایڈوانس انکریمنٹ دیئے گئے، ایڈوانس انکریمنٹ تبادلہ شدہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور دو ماہ قبل تعینات ہونیوالے رجسٹرار ہائیکورٹ کو بھی دیئے گئے، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے ریڈر اور انکی اہلیہ سینئر سول جج کو 4 سال کی تعلیمی چھٹی بمعہ تنخواہ دینے کی منظوری دی گئی، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے دیگر متعدد ملازمین کو بھی بغیر کسی قانونی جواز اور اختیار کے چھ چھ ماہ، ایک ایک سال کی چھٹیوں کی منظوری دی، ریڈر اور انکی اہلیہ کی تعلیمی چھٹی کیلئے کسی یونیورسٹی کا ریکارڈ اور قانون تقاضہ فائل کے ریکارڈ پر موجود نہیں ہے،لاہور ہائیکورٹ کے 50 سے زائد ملازمین کی سزائیں ایک دستخط سے ختم کرنے کے درجنوں نوٹیفکیشنز ایک ہی دن جاری کئے گئے، صوابدیدی اختیارات کے تحت سزائیں ختم کرنا قانون تحت قائم سروس ٹربیونلز کو غیرفعال کرنے کے مترادف ہے، لاہور ہائیکورٹ کے دو ڈپٹی رجسٹرار شہباز انور اور شہباز اشرف کی سزائیں ختم کے انہیں بھی ایڈوانس انکریمنٹس دیئے گئے، دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کو سزائیں ختم کرانے کیلئے خود ہی اپنا نیا انکوائری افسر مقرر کرنے کی اجازت دی گئی، ایڈوانس انکریمنٹس کے علاوہ دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کی سزائیں ختم کر کیانہیں ترقیاں بھی دیدی گئیں، اب لاہور ہائیکورٹ کا کوئی نیا افسر دونوں ڈپٹی رجسٹرار کی فائلوں کی انکوائری کا ذمہ اٹھانے کو تیار نہیں ، دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کی فائلیں ایک برانچ سے دوسری برانچ گھوم رہی ہیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے زیادہ تر نوٹیفکیشنز ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل 6مارچ کو جاری کئے گئے، ہائیکورٹس کے ملازمین کے ساتھ اقربا پروری کا سلوک کرکے عدلیہ کو بدنام کیا گیا،عدلیہ میں کرپشن اور اقربا پروری سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، ہائیکورٹس کے انتظامی اختیارات فرد واحد چیف جسٹس کی بجائے انتظامی کمیٹیوں کے پاس ہونے چاہیے، فرد واحد کو اختیارات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے سے کرپشن اور اقربا پروری کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں، استدعا ہیکہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوبائی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دیا جائے، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی ریٹائرمنٹ سے 1 ماہ قبل جاری کئے گئے تمام نوٹیفکشنز کا عدالتی جائزہ لیا جائے، لاہور ہائیکورٹس کے افسران کو دی گئی ایڈوانس انکریمنٹس غیرقانونی قرار دے کر واپس سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے۔