چیئرمین این ٹی سی نے وفاقی بجٹ 2024-25 میں متعدد مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرادی

پیر 22 اپریل 2024 23:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اپریل2024ء) چیئرمین نیشنل ٹیرف کمیشن (این ٹی سی) نعیم انوار نے درآمدی، برآمدی ٹیرف، اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی اور دیگر انسدادی اقدامات میں مختلف اناملیز کی وجہ سے تاجر برادری کو درپیش شکایات سننے کے بعد یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ کراچی چیمبر کی جانب سے اجاگر کیے گئے متعدد مسائل پر اسلام آباد میں این ٹی سی ٹیم کی جانب سے غور کیا جائے گا اور اس کے مطابق وفاقی بجٹ 2024-25 میں اس کی اصلاح کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کی جائیں گی۔

یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کے سی سی آئی کو مشورہ دیا کہ وہ تمام مسائل کی تفصیلات تحریری طور پر بجٹ تجاویز کے ساتھ جلد سے جلد ارسال کرے۔

(جاری ہے)

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کے سی سی آئی اپنی بجٹ تجاویز اسلام آباد میں کس کو بھیجتا ہے یہ سب کمیشن کی تکنیکی ٹیم کی جانب سے این ٹی سی کو جائزہ لینے کے لیے بھیجی جاتی ہیں جو ان کا بغور جائزہ لیتا ہے اور ان کے اثرات کا بھی جائزہ لیتے ہوئے اگر انہیں معیشت کے لئے سازگار پاتا ہے تو ان تجاویز کو بجٹ میں شامل کرنے کے لیے حکومت کو بھیج دیا جاتا ہے۔

اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ، نائب صدر تنویر باری، چیئرمین خصوصی کمیٹی برائے بجٹ تجاویز محمد ابراہیم کوسمبی، سابق صدور مجید عزیز اور جنید اسماعیل ماکڈا، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین اور مختلف تجارتی اداروں کے دیگر نمائندوں نے بھی شرکت کی۔چیئرمین نیشنل ٹیرف کمیشن نے کہا کہ این ٹی سی جو کہ این ٹی سی ایکٹ 2015 کے تحت کام کرتا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تین قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کرے جس میں اینٹی ڈمپنگ قانون کا نفاذ، سبسڈی کے سدباب کا قانون، حفاظتی اقدامات شامل ہیں تاکہ مقامی صنعت کی ترقی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مینوفیکچرنگ سیکٹرکو سپورٹ کیا جاسکے اور درآمدات میں غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کو روکا جاسکے۔

ہم زیادہ سے زیادہ اقتصادی ترقی کے لیے ایک مربوط صنعتی و تجارتی پالیسی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت این ٹی سی میں بجٹ کی تالیف کا عمل جاری ہے اور کمیشن کو مختلف اسٹیک ہولڈرز سے بجٹ تجاویز موصول ہو رہی ہیں اس کے باوجود انہوں نے کراچی چیمبر کا دورہ کرنا ضروری سمجھا تاکہ تاجر برادری سے روبرو بات چیت کرتے ہوئے ٹیرف سمیت دیگر مسائل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور تجاویز مرتب کی جاسکیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ این ٹی سی سے منظوری ملنے کے بعد کسی بھی کیس میں پانچ سال کی مدت کے لیے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جو کہ 5 سے 60 فیصد تک ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں مقامی صنعت کو سپورٹ کرنے کے لیے کسی مخصوص مصنوعات کی درآمد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ایسا ہی معاملہ سبسڈی کے انسداد کے اقدامات کا بھی ہے کیونکہ وہ بھی پانچ سال کی مدت کے لیے عائد ہوتا ہے۔

این ٹی سی کے اینٹی ڈمپنگ اور کاؤنٹر ویلنگ قوانین کی بدولت کئی اداروں نے اچھی ترقی کی ہے۔چیئرمین این ٹی سی نے پیپر انڈسٹری، پیکیجنگ انڈسٹری، یارن کے تاجروں، آٹوموبائل و دیگر کے نمائندوں کو درپیش مشکلات کو سننے کے بعد انہیں مشورہ دیا کہ وہ اسلام آباد میں این ٹی سی کی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر ان تمام مسائل پر تبادلہ خیال کریں جو غیر منصفانہ نرخوں کی وجہ سے انہیں درپیش ہیں تاکہ ان کا جائزہ لیا جا سکے اور جہاں بھی ضرورت ہو مدد کی جا سکے۔

کے سی سی آئی کے صدر افتخار شیخ نے چیئرمین این ٹی سی کی جانب سے تاجر برادری کو درپیش مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں سنجیدگی کے مظاہرے کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ این ٹی سی کے سی سی آئی کی دی گئی تمام سفارشات کو مدنظر رکھے گا اور وفاقی بجٹ میں ان کی اصلاح کے لیے حکومت کو سفارش کرے گا جو یقیناً معیشت کے لیے سازگار ثابت ہوگا کیونکہ کے سی سی آئی کی بجٹ تجاویز خالصتاً ملک کے وسیع تر مفاد میں دی گئی ہیں۔

کے سی سی آئی کی بجٹ تجاویز کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ابراہیم کوسمبی نے کہا کہ اگر این ٹی سی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے دانشمندانہ اقدامات کرے توکرنٹ اکاؤنٹ خسارے، مالیاتی خسارے سمیت معاشی و دیگر مسائل سے پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگرچہ این ٹی سی مقامی مینوفیکچررز کے مفاد کے تحفظ کے لیے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کرتی ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مینوفیکچررز اجارہ داری سے لطف اندوز ہوتے چلے آرہے ہیں اور بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی پیداوار کو بڑھانے کی زحمت نہیں کرتے۔

اس لیے ایسی صنعتوں کے لئے ایک پالیسی متعارف کرائی جائے جو انہیں پابند کرے کہ وہ پیداوار بڑھا کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور اپنی تیار شدہ اشیاء کا کچھ حصہ برآمد بھی کریں جبکہ اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کو بتدریج ختم کیا جانا چاہیے تاکہ دوسرے شعبوں خاص طور پر ایس ایم ایز کو سپورٹ کیا جا سکے۔انہوں نے فاٹا، پاٹا اور آزاد کشمیر کے چائے کے درآمد کنندگان کو دی جانے والی رعایتوں اور چھوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی 50 فیصد چائے ان علاقوں میں مقیم چار سے پانچ درآمد کنندگان درآمد کر رہے ہیں جبکہ دیگر درآمد کنندگان پر بہت زیادہ ٹیرف عائد کیے گئے ہیں جنہیں11 فیصد کسٹم ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ریگولیٹری ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے لہٰذا یکساں کاروباری مواقع فراہم کرنے کے لیے فاٹا، پاٹا اور آزاد کشمیر کو دی گئی چھوٹ اور رعایتیں ختم کی جائیں۔

حکومت کو ٹیکس پابند تاجروں کی بھی حمایت کرنی چاہیے جو تمام ٹیکس اور ڈیوٹیز بروقت ادا کر تے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آٹوموبائل سیکٹر کے حوالے سے این ٹی سی کی پالیسی پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ تحفظ کے باوجود یہ شعبہ گزشتہ 40 سالوں میں ایک یونٹ بھی برآمد کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ مراکش جیسا چھوٹا ملک گاڑیاں برآمد کر رہا ہے۔آٹوموبائل، موٹرسائیکل کے اسپیئر پارٹس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک نمائندے نے نشاندہی کی کہ اس شعبے پر تقریباً 85 فیصد کے سب سے زیادہ ٹیرف کا بوجھ لادا گیا ہے جو کہ انتہائی غیر منصفانہ ہے باالخصوص ایسی صورتحال میں جب مقامی مینوفیکچررز کی پیداواری صلاحیت بمشکل 40 فیصد ہے اور ان کا تیار شدہ سامان زیادہ تر صرف مینوفیکچررز کو فراہم کیا جا رہا ہے جب کہ آفٹر سیلز مارکیٹ جو خالصتاً درآمدات پر منحصر ہے غیر قانونی چینلز کی طرف منتقل ہو گئی ہے اور اسپیئر پارٹس بڑے پیمانے پر ملک میں اسمگل کیے جا رہے ہیں۔

اس لیے جائز تجارت کی حوصلہ افزائی اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے بہت زیادہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں نمایاں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔#