پاکستان سے جلد چین کو ڈیری مصنوعات کی ایکسپورٹ کا آغاز ہوگا ،سیکریٹری لائیو سٹاک

بدھ 24 اپریل 2024 21:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اپریل2024ء) سیکریٹری لائیو اسٹاک مسعود انور نے کہا ہے کہ پاکستان سے جلد چین کو ڈیری مصنوعات کی ایکسپورٹ کا آغاز ہوگا یہ ایکسپورٹ شیخوپورہ میں قائم ایک جدید فارم سے کی جائیگی جو چین کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے خصوصی طور پر قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بات پاکستان ایگری کلچر کولیشن کے تحت لاہور میں منعقدہ ایگری کنکشنز سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ چین کی ایک کسٹم ٹیم نے حال ہی میں ہمارے شیخوپورہ کے مذکورہ فارم کا دورہ کرکے چین کو ڈیئری مصنوعات کی برآمدات کے لئے پاکستان کی اصولی منظوری دے دی ہے۔اس موقع پر پنجاب حکومت کے سیکرٹری زراعت، افتخار سہو نے کارپوریٹ اور فناشنل سیکٹر کے نمائندوں سے خطاب میں کہا کہ نجی سیکٹر زراعت کا مستقبل ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ''نئی حکومت زرعی شعبہ کی ترقی کا ویژن رکھتی ہے جس کے تحت آئندہ دو سال میں زرعی شعبہ میں 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ تین سال میں صوبے میں ذرائع آب پاشی کو بہتر بنانے کے لیے 80ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائیگی۔ پنجاب حکومت مختلف تحقیق اور شراکت داری کے لیے اشتراک عمل کو فروغ دے رہی ہے تاکہ زرعی تحیق کو فروغ دینے کے ساتھ زرعی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ کو وظائف کے ساتھ انٹرن شپ فراہم کی جاسکے۔ افتخار سہو نے کہا کہ باوجود اس کے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، ہر سال 5 ارب ڈالر کی خوراک درآمد کی جاتی ہیں جبکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا، زیر کاشت رقبہ میں کمی اور رہائشی منصوبوں کی وجہ سے زرعی اراضی کی کمی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ زرعی پیداوار ایک ہی سطح پر برقرار رہنے سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ دوسری جانب فرسودہ طریقوں اور پست معیار کی فارمنگ کی وجہ سے ہر سال زرعی پیداوار کو 1.5ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اس موقع پر نیشنل فوڈز لمیٹڈ کے گلوبل سی ای او ابرار حسن نے نیشنل فوڈز کے بیج سے میز تک کے منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پراجیکٹ اگست 2023میں ترقی پسند فارمز چلانیو الی کمپنیوں کے اشتراک سے شروع کیا گیا جس کا مقصد خوراک کے لیے درآمدات پر انحصار کم کرتے ہوئے مقامی کاشتکاروں کو بااختیار بنانا اور پاکستان کی ایگری کلچر ویلیو چین کو مضبوط بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں بیج سے میز کے پراجیکٹ کے نتائج توقع سے زیادہ رہے اور اس منصوبے سے درآمدات کے متبادل کی مد میں 2ملین ڈالر کی بچت ہوئی ہے جبکہ 10ملین ڈالر کے مقامی امکانات کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوری سپلائی چین کا کنٹرول لیتے ہوئے ہم نے اعلی معیار کے ٹماٹر براہ راست نیشنل فوڈ کی پیداواری سہولت تک تسلسل کے ساتھ پہنچانے کو یقینی بنایا ہے۔

قبل ازیں، سی ای او پاکستان ایگریکلچر کولیشن، عارف ندیم نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا کام پاکستان کے زرعی شعبے کی عالمی سطح پر مسابقت کی صلاحیت کو بڑھانا ہے اور ایگری کنکشنز میں اٹھائے گئے مسائل کو حکومت، پالیسی سازوں کو حل کرنا ہے۔ عارف ندیم نے کہا کہ ''ہمیں اپنے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے چیزوں کو متحرک کرنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ اس قسم کی کانفرنسوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے لیے بہتر ماحول پیدا ہوتا ہے۔

'' انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں چین، ہنگری، برطانیہ اور دیگر ممالک کے زرعی ماہرین نے شرکت کی اور زراعت سے متعلق ہمارے علم اور پلیٹ فارمز کا مشاہدہ کیا ہے۔ عارف ندیم نے کہا، ''اس کانفرنس میں 35 چھوٹے سٹارٹ اپس نے اپنی مصنوعات کے ساتھ شرکت کی اور زرعی شعبے میں سٹارٹ اپس کے لیے ہمارے مقابلے میں حصہ لیا۔''کانفرنس کے پہلے دن زراعت کس طرح پاکستان کی معیشت کو بچا سکتی ہے اس پر پینل ڈسکشن کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معزز مقررین نے زرعی شعبے میں ملک کے لیے مواقع اور آپشنز پر تبادلہ خیال کیا۔

آفاق ٹوانہ، سی ای او فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹر زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہش امید افزا ہے لیکن کچھ پرانی پالیسیاں جیسے ان پٹ کے لیے سبسڈی کے حوالے سے سپورٹ اب بھی موجود ہے جو اس شعبے کی ترقی کو روکتی ہے۔ یہ پالیسی موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے کسانوں کی نہیں بلکہ قابل عمل کسانوں کی مدد کی جائے جبکہ پیداوار کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے سے کسانوں کے منافع میں کمی آتی ہے، اس لیے حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر اقبال احمد، وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایگریکلچر نے کہا کہ نجی شعبے کو اعلی کارکردگی والی آبپاشی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور ان کے پاس اور بھی بہت سے مواقع ہیں۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے پرنسپل کنٹری آفیسر ناز خان نے کہا کہ 2050 تک پاکستان کی آبادی 400 ملین ہو جائے گی اس لیے زرعی شعبہ ملک کے لیے بہت اہم ہے۔ناز خان نے کہا، ''مقامی حکومت کی جانب سے زرعی شعبے کی مدد پر گرانٹس اور سبسڈیز کی مد میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے جاتے ہیں، جسے ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس شعبے کی ترقی کے لیے نجی شعبے کو شامل کرنے اور میکانائزیشن کے ذریعے اسے برآمدات پر مبنی بنانے کی ضرورت ہے۔