غزہ سے جڑی نئی امریکی بندرگاہ پر اپنی فوج تعینات نہیں کریں گے ، برطانیہ

مجھے لگتا ہے یہ ایک رسک ہو گا اس لیے ہم اس میں نہیں پڑیں گے ،وزیرخارجہ کیمرون

پیر 13 مئی 2024 17:26

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مئی2024ء) وزیر خارجہ برطانیہ ڈیوڈ کیمرون نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ان کا ملک غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل کے لئے اپنی فوج نہیں بھجے گا۔ البتہ اس کام کے لئے برطانیہ ٹھیکیداروں سے مدد لے سکتا ہے۔ ماضی میں امریکہ بھی ہر جگہ پر اپنی فوج کے استعمال کے بجائے سول کنٹریکٹرز کو بھی بروئے کار لاتا رہا ہے۔

افغانستان، پاکستان اور عراق میں امریکہ ایسا کر چکا ہے۔ امریکہ اسے بلیک واٹر کا نام بھی دیتا رہا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اب جبکہ امریکہ نے غزہ سے جڑی ساحلی پٹی پر پینٹاگون کے ذریعے ایک نئی بندرگاہ تعمیر کرلی ہے ۔ اس پندرگاہ کو چلانے کے لئے اسے پینٹاگون کے ساتھ دیگر اتحادیوں کی فوج کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ امریکہ کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے چھوٹی سی جنگی یا غیر جنگی ضرورت کے لئے بھی تنہا اپنی فوج کو استعمال نہیں کرتا بلکہ سب اتحادیوں کو ساتھ ملاتا ہے۔

(جاری ہے)

نئی بندر گاہ کے لئے بھی برطانیہ وغیرہ کی ضرورت ہے۔اسی بارے میں وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ان کا ملک اپنی فوج نہیں بھیجے گا۔ خیال رہے یہ فوج غزہ کے ساحل پر تعینات کرنے کا امریکی منصوبہ ہے۔ تاکہ اپنی فوج کی موجودگی میں اور امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم ممکن بنا سکے۔برطانوی وزیر خارجہ نے یہ اس کے باوجود کہا کہ ان کاملک اس کوشش کا پوری طرح حصہ ہے اور کی رائل نیوی میں سارے منصوبے میں ساتھ رہی ہے۔

رائل نیوی کا بحری جہاز لاجسٹک کے امور میں خدمات پیش کرتا رہا ہے۔لیکن غزہ کے نزدیک اپنے فوجیوں کو کسی بھی آپریشن کا اب حصہ بنانے سے برطانبہ گریز کی پالیسی دکھا رہا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے یہ بات بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔برطانوی فوجیوں کی زمین پر موجودگی کے بارے میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ ایک رسک ہو گا اس لیے ہم اس میں نہیں پڑیں گے اور برطانوی فوجیوں ک زمین پر نہیں اتاریں گے۔

ہاں بعض دوسرے لوگوں کے لیے (ملکوں کے لیی)یہ کام آسان ہو گا وہ اسے آسانی سے کر لیں گے۔امریکہ اور برطانیہ اس وقت اسرائیل کو رفح میں بغیر منظم منصوبے کیوسیع زمینی جنگ سے روک ریے ہیں کہ ایسا کرنے سے حالات سنگین تر ہوں گے، پہلے ہی انسان تباہی کا شکار ہو چکے ہیں ۔دونوں ملکوں کا اپنے ہاں نوجوان نسل کے علاوہ سیاسی و عوامی سطح پر بھی رد عمل کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔

امریکی انتخابی مہم کے دوران یہ سلسلہ مزید پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔امریکہ نے تو اکا دکا بموں کی قسمیں تکنیکی بنیادوں پر روکنے کا عندیہ دیا ہے کہ رفح پر حملے کے لیے ان بوئنگ ساختہ بموں کی اسرائیل کو ضرورت نہیں ہے۔ البتہ برطانیہ نے اپنی اسلحہ کمپنیوں کو اسرائیل کے لیے اسلحے کی ترسیل روکنے کے لیے نہیں کہا ہے۔تاہم برطانوی وزیر خارجہ نے عندیہ دیا ہے کہ برطانیہ کا ایک اہم نمائندے کی اس پس منظر میں اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے۔جو انسانی امداد کی تقسیم کے امور پر بھی بات کرے گا۔