بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو ایک ارب ڈالر کے اسلحے اور بارود کا نیا پیکج بھجوا رہی ہے. اراکین کانگریس

پیکج میں ٹینکوں کے گولہ بارود کے لیے 70 کروڑ ڈالر، فوجی گاڑیوں کے لیے 50 کروڑ ڈالر اور چھ کروڑ ڈالر کے مارٹر گولے شامل ہیں. امریکی ادارے کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 15 مئی 2024 11:30

بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو ایک ارب ڈالر کے اسلحے اور بارود کا نیا پیکج ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15مئی۔2024 ) امریکی کانگریس کے عہدیداروں نے دعوی کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو ایک ارب ڈالر کے اسلحے اور بارود کا نیا پیکج بھجوا رہی ہے رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل کو 3500 بموں کی منتقلی روکنے کے بعد تل ابیب کو اسلحے کی یہ پہلی کھیپ ہو گی جس کا بائیڈن انتظامیہ نے فی الحال اعلان نہیں کیا.

(جاری ہے)

بائیڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ اسرائیل کو رفح کے شہر پر بم برسانے سے روکنے کے لیے بموں کی منتقلی روکی گئی تھی کانگریس کے عہدیداروں نے نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اسرائیل کو اسلحہ بھجوانے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ پیکج میں ٹینکوں کے گولہ بارود کے لیے 70 کروڑ ڈالر، فوجی گاڑیوں کے لیے 50 کروڑ ڈالر اور چھ کروڑ ڈالر کے مارٹر گولے شامل ہیں تاہم اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ اسرائیل کو فوجی پیکج کب بھجوایا جائے گا.

یاد رہے کہ ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ارکان اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی لازمی قرار دینے کے حوالے سے رواں ہفتے ایک بل پیش کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو بموں کی ترسیل روکنے پر ریپبلکن ارکان نے تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں اپنے قریبی اتحادی کو ترک کرنے کے مترادف ہے.

وائٹ ہاﺅس نے گزشتہ روز کہا تھا کہ بل کانگریس سے منظور ہونے کی صورت میں صدر جو بائیڈن اسے ویٹو کر دیں گے تاہم ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ ارکان اس تمام معاملے پر منقسم دکھائی دیتے ہیں ان میں سے متعدد نے بائیڈن انتظامیہ کو خط بھی لکھا ہے اور کہا ہے کہ بموں کی منتقلی روک کر جو پیغام بھیجا گیا ہے اس پر انہیں گہری تشویس ہے. بائیڈن انتظامیہ میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی لازمی قرار دینے سے متعلق قانون سازی پر وائٹ ہاﺅس ایوان کے متعدد ارکان سے رابطے میں ہے.

وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کیرین ژاں پئیر نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ہم امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مقاصد کے مطابق سکیورٹی امداد کی تعیناتی کے لیے صدر کی صلاحیت کو محدود کرنے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں.