اسٹیٹ بینک نے ملک کی معیشت کی صورتحال سے متعلق ششماہی رپورٹ جاری کردی‘ اوسط مہنگائی کی 23 سے 25 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی

تیل اور گندم کی قیمتوں میں کچھ وقتی کمی واقع ہوئی ہے تو بجلی اور گیس سمیت دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ‘حکومت اور مرکزی بنک کے دعوﺅں کے مطابق اگر معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے تو اسٹیٹ بنک شرح سود میں کمی سے کیوں گریزاں ہے؟.معاشی ماہرین نے رپورٹ کو اعدادوشمار کا گورکھ دھندا قراردیدیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 15 مئی 2024 11:53

اسٹیٹ بینک نے ملک کی معیشت کی صورتحال سے متعلق ششماہی رپورٹ جاری کردی‘ ..
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15مئی۔2024 ) اسٹیٹ بینک نے ملک کی معیشت کی صورتحال سے متعلق ششماہی رپورٹ جاری کردی جس میں مالی سال 24 کے لیے اوسط مہنگائی کی 23 سے 25 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو مالی سال 23 کے مقابلے میں 29اعشاریہ2فیصد کم بتائی جارہی ہے جبکہ ماہرین اسے محض الفاظ کا گورکھ دھندا قراردے رہے ہیں کیونکہ اگر تیل اور گندم کی قیمتوں میں کچھ وقتی کمی واقع ہوئی ہے تو بجلی اور گیس سمیت دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے معاشی ماہرین کے مطابق حکومت اور مرکزی بنک کے دعوﺅں کے مطابق اگر معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے تو اسٹیٹ بنک شرح سود میں کمی سے کیوں گریزاں ہے؟.

(جاری ہے)

ادھر مرکزی بنک کا کہنا ہے کہ ستمبر 2025 تک مہنگائی کے مزید کم ہو کر 5 سے 7 فیصد تک آنے کی توقع ہے مالی سال 24 کی پہلی ششماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معاشی حالات مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران بہتر ہوئے رپورٹ جولائی تا دسمبر مالی سال 24 کے اعدادوشمار کے تجزیے پر مشتمل ہے. رپورٹ کے مطابق حقیقی اقتصادی سرگرمیوں میں گذشتہ سال کے سکڑاﺅکے برعکس معتدل بحال ہوئی جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ عارضی انتظام (ایس بی اے) نے بیرونی کھاتے پر دباﺅ کم کرنے میں مدد دی ہے دریں اثنا، سخت زری اور مالیاتی پالیسیوں کے تسلسل، زرعی پیداوار میں بہتری اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جاری کھاتے کے خسارے میں خاصی کمی آئی.

رپورٹ کے مطابق مالیاتی پہلو سے مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی توازن مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں زائد سرپلس رہا جس کی وجہ ٹیکس اور نان ٹیکس دونوں آمدنیوں میں ایسی معقول نمو تھی جو غیر سودی اخراجات کی بڑھوتری سے بھی زیادہ تھی رپورٹ کے مطابق ملکی طلب محدود رہنے کے باوجود مہنگائی کا دباوﺅ بلند سطح پر برقرار رہا اس میں کہا گیاکہ مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران زرعی شعبے کی وجہ سے حقیقی جی ڈی پی میں 1.7 فیصد نمو ہوئی، شعبہ زراعت میں بحالی سے زرعی اساس والی کچھ صنعتوں کو بھی مدد ملی.

رپورٹ کے مطابق درآمدات کو محدود کرنے والے اقدامات کے خاتمے سے صنعت کے لیے خام مال کی دستیابی بہتر ہوئی، آئی ایم ایف کے ایس بی اے کی منظوری سے بیرونی قرض گیری کی رکاوٹیں کم ہوئیں جس سے مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران مالی رقوم کی آمد میں اضافہ ہوا اس کے علاوہ مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں زیر جائزہ مدت کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کم رہیں ‘درآمدات میں کمی کے ساتھ ساتھ برآمدات بڑھنے کی وجہ سے جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی آئی جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا.

رپورٹ میں بتایا گیا کہ محدود ملکی طلب اور اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود قومی صارف اشاریہ قیمت (این سی پی آئی) مہنگائی بلند رہنے کے اسباب دیرینہ ساختی مسائل، مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، حکومتی اخراجات میں اضافہ اور رسدی دھچکے تھے اس میں کہا گیا کہ مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران قوزی مہنگائی برقرار رہنے کے اسباب میں خام مال کی بلند لاگت، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ، اور مالی سال 24 کے بجٹ میں اعلان کردہ کم از کم اجرت میں اضافے پر عملدرآمد کے علاوہ غذا اور توانائی کی اشیا کی سرکاری قیمتوں کے دورِ ثانی کے اثرات شامل تھے.

رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ معاشی اشاریوں میں کچھ بہتری کے باوجود، معیشت کو بدستور ساختی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں محدود بچتیں، طبیعی اور انسانی سرمائے میں پست سرمایہ کاری، پست پیداواریت، جمود کا شکار برآمدات، ٹیکس دہندگان کی کم تعداد، اور سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی نا کارکردگی شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ، غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کے باعث معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل، کمزور نظم و نسق اور سرکاری انتظام، سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا ہونے کے سبب صورتِ حال مزید خراب ہوگئی، جس نے معاشی ترقی کو گہنادیا.

رپورٹ میں کہا گیا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وسط تا طویل مدتی پائیدار ترقی یقینی بنانے کے لیے پالیسی اصلاحات کی جائیں رپورٹ میں ایک خصوصی باب شامل کیا گیا ہے جو پاکستان میں مہنگائی کے طویل مدتی رجحانات اور اس کے عوامل کے تجزیے پر مشتمل ہے اس باب میں مہنگائی پر اثرانداز ہونے والے پالیسی اور ساختی عوامل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں زرعی پالیسی فریم ورک، مالیاتی اور قرضہ جاتی پالیسی، تجارتی کشادگی، زرعی کارکردگی، پیداواریت اور آبادیاتی رجحانات شامل ہیں، اس باب میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سیاسی اور پالیسی کی بے یقینی صورتِ حال میں بہتری لاکر اور مزید مالیاتی یکجائی سے قلیل مدت میں مہنگائی کو تیزی سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، وسط مدت میں مہنگائی کو کم اور مستحکم کرنے کے لیے زرعی پالیسی پر بوجھ ڈالے بغیر اور ،نتیجتاً بلند معاشی قیمت چکائے بغیر دیرینہ ساختی مسائل حل کرنے پر بھی اس باب میں زور دیا گیا ہے.

رپورٹ میں مالی سال 24 کی دوسری ششماہی کے دوران معیشت میں معمولی بحالی کا سلسلہ جاری رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے رپورٹ میں کاروباری اداروں کے اعتماد، نومبر 2023 کے بعد سے بلند تعدد والے طلب کے اظہاریوں اور مالی سال 24 کے دوران گندم کی اچھی پیداوار کے امکانات میں بہتری کے تناظر میں اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24 کی حقیقی جی ڈی پی نمو 2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے.

دوسری جانب ملکی معیشت اور اجناس کی بین الاقوامی منڈی دونوں میں غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہنے کے باوجود قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی میں کمی کا سلسلہ جاری رہنے کی توقع ہے ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24 کے لیے اوسط قومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی 23.0 سے 25.0 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو مالی سال 23 کے 29.2 فیصد کے مقابلے میں کم ہے اور ستمبر 2025 تک اس کے مزید کم ہو کر 5 سے 7 فیصد تک آنے کی توقع ہے.

رپورٹ میں بیرونی کھاتوں کے معاملے میں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ سابقہ تخمینوں سے کم رہنے کا امکان ہے جس کی وجہ عالمی منظر نامے میں معمولی بہتری اور ملکی نمو کے امکانات ہیں جن کے نتائج برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے زرمبادلہ کی آمدنی میں اضافے کی صورت میں نکل سکتے ہیں اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24 کے لیے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.5 سے 1.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے، یہ معاشی منظر نامہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی تناﺅ، غیر موافق موسمی حالات، تیل کی عالمی قیمتوں میں منفی رد و بدل کے زیر اثر رہے گا اور ان عوامل کے نتیجے میں بیرونی کھاتوں پر دباﺅ پڑتا ہے رپورٹ میں کہا گیا کہ توانائی کی قیمتوں میں مزید رد و بدل اور مالیاتی یکجائی، جو قرضوں میں اضافے کی رفتار کو سست کرنے کے لیے ضروری ہے، معاشی سرگرمیوں اور مہنگائی پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے.