جج خط نہیںلکھتا ،نوٹس جاری کرتا ہے،عدلیہ کو تمام پریشر سے آزاد ہونا چاہیے،طلال چوہدری

بدھ 15 مئی 2024 23:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مئی2024ء) مسلم لیگ (ن)کے راہنماسینیٹرطلال چودھری نے کہا ہے کہ جج خط نہیںلکھتا بلکہ نوٹس جاری کرتا ہے،عدلیہ کو تمام پریشر سے آزاد ہونا چاہیے، دبائو برداشت نہ کرسکنے والا انصاف کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے،عام آدمی کوعدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا وہ کس کو خط لکھی توہین عدالت پر وزیراعظم سے لے کر رکن اسمبلی تک نااہل ہوسکتا ہے مگر توہین پارلیمنٹ پر کسی جج کو پارلیمنٹ نہیں بلایا جاسکتا۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے رہنماسینیٹرطلال چودھری نے کہا کہ نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ضلعی عدلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لیٹر لکھا ہے، اگر کسی خط کا نوٹس ہونا چاہئے تو پہلے ضلعی عدلیہ پر ہونا چاہئے، یہ پارلیمنٹ، سیاست دانوں کی بھی ناکامی ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ عدلیہ کو بہتر بنانے میں پارلیمان کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے تھا، آرٹیکل 62،63 پر پورا نہ اترنے والے ہی فیصلے کر رہے ہیں، ضلعی عدلیہ کا خط عام آدمی کیلئے بہت اہم ہے، عدلیہ پر کسی قسم کا پریشر نہیں ہونا چاہئے، وکلا جو پریشر ڈالتے ہیں وہ بھی پریشر ہے، عدلیہ کو تمام پریشرسے آزاد ہونا چاہیے۔

طلال چودھری نے کہا کہ اگر ادارے اپنے نچلے اداروں میں انصاف نہیں کرتے تو پارلیمان کو سوموٹو لینا چاہیے۔مسلم لیگ (ن )کے رہنما سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ جو شخص پریشر نہیں لے سکتا تو انصاف کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے، جج خط نہیں بلکہ نوٹس جاری کرتا ہے، ججز وزیراعظم کو پھانسی یا اقتدار سے ہٹا دیتے ہیں،انھوں نے کہا کہ عام آدمی کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا وہ کس کو خط لکھی توہین عدالت پر وزیراعظم سے لے کر رکن اسمبلی تک نااہل ہوسکتا ہیمگر توہین پارلیمنٹ میں کسی جج کو پارلیمنٹ نہیں بلایا جا سکتا، نواز شریف کو تاحیات نااہل کر دیں پھر کہیں کہ غلط فیصلہ ہوا تھا، ان کو نہ پوچھیں جنھوں نے نااہل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کون ہے جس کو ججز نوٹس نہیں کرسکتے،پوری دنیا میں ایک ہی ضابطہ ہے کہ ججز اپنے فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں،ججز لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ہماری کوئی نہیں سن رہا،ضلعی عدلیہ کو پریشر اور تحفظ سے بچانے کیلئے ہائیکورٹ ہوتا ہے،آپ کو تو جزا و سزا کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدلیہ کو تمام پریشر سے آزاد ہونا چاہیے،پارلیمنٹ کو سوموٹو لینا چاہیے، یہ سب سے بڑا ادارہ ہے ،مظاہرعلی نقوی کو ڈس مس کیا گیا تاحال وہ اسی گھر میں رہ رہے ہیں، اعجازالاحسن نے چار لائنیں لکھیں اور اب پنشن بھی لیں گے، سزا اور جزا کا سسٹم عدلیہ کے اندر بہتر ہونا چاہیے۔