آئی سی جے: رفح میں اسرائیلی کارروائی روکنے کی استدعا پر سماعت مکمل

یو این ہفتہ 18 مئی 2024 12:30

آئی سی جے: رفح میں اسرائیلی کارروائی روکنے کی استدعا پر سماعت مکمل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 مئی 2024ء) رفح پر اسرائیلی حملہ روکنے کا حکم دینے کے لیے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جنوبی افریقہ کے مقدمے کی سماعت مکمل ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس نے نسل کشی کا ارتکاب نہیں کیا۔

اسرائیل کے معاون نمائندے گیلاد ناؤم نے عدالت کے روبرو اپنے ملک کا موقف پیش کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے الزامات کو نسل کشی کے خلاف 'انتہائی مقدس کنونشن کا مکروہانہ استحصال' قرار دیا۔

انہوں ںے کہا کہ اسرائیل کو ایک مشکل اور المناک مسلح جنگ کا سامنا ہے۔ زیربحث صورتحال کو سمجھنے کے لیے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے لیکن جنوبی افریقہ نے اسے نظرانداز کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

جنوبی افریقہ کی جانب سے عدالت میں دی گئی یہ درخواست اسرائیل کے خلاف انسداد نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کے الزام میں اس کے زیرسماعت مقدمے کا حصہ ہے۔ یہ درخواست 10 مئی کو دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 'آئی سی جے' اسرائیل کو رفح میں اپنی عسکری کارروائیاں فوری طور پر بند کرنے کا حکم جاری کرے۔

'آئی سی جے' کے منصفین اب یہ فیصلہ کرنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں کہ آیا جنوبی افریقہ کی درخواست پر نیا حکم جاری کیا جانا چاہیے یا نہیں۔

عدالت کے عبوری احکامات کسی مقدمے کے حتمی فیصلے سے قبل حکم امتناعی کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ حتمی فیصلہ ہونے میں کئی برس بھی لگ سکتے ہیں۔ ممالک کے لیے ان احکامات پر عملدرآمد قانوناً لازم ہے لیکن عدالت کے پاس اپنے احکامات کی تعمیل ممکن بنانے کے کوئی ذرائع نہیں ہوتے۔

© ICJ/Wendy van Bree
اسرائیل کے معاون نمائندے گیلاد ناؤم اپنے دلائل دے رہے ہیں۔

اسرائیل کا موقف

اسرائیل کے نمائندے نے عدالت میں اپنے ملک کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی کے حوالے سے جنوبی افریقہ کے الزامات بیہودہ ہیں، حقائق کی اہمیت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ الفاظ کے مفاہیم برقرار رہنے چاہئیں۔ کسی صورتحال کو بار بار نسل کشی قرار دینے سے وہ نسل کشی نہیں بن جاتی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے یہ جنگ شروع نہیں کی تھی بلکہ اس کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی شہریوں پر حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے حملوں سے ہوا جن میں 1,200 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 254 خواتین، مردوں اور بچوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔

غزہ میں موجود حماس اور دیگر دہشت گرد گروہ اسرائیل پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کر رہے ہیں اور ان کے گھروں اور شہری تنصیبات کو تباہ کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، حماس فلسطینی شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

گیلاد ناؤم نے کہا کہ اگرچہ 'آئی سی جے' نے یرغمالیوں کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے لیکن انہیں بدستور قید میں رکھا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی جگہ کسی اور ملک کو ایسے حالات درپیش ہوتے تو وہ بھی یہی کچھ کرتا۔ حماس جیسی دہشت گرد تنطیم کی سفاکیت کے خلاف اسرائیل کے حقِ دفاع پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کا اور کسی بھی ریاست کا خلقی حق ہے۔

اپنے بیان کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبل ازیں عدالت جنوبی افریقہ کی ایسی ہی درخواست کو مسترد کر چکی ہے اور موجودہ حالات میں اسرائیل کے خلاف عبوری اقدامات کا حکم ہر طرح سے غیرمناسب ہو گا۔

© ICJ/Wendy van Bree
نیدرلینڈز کے لیے جنوبی افریقہ کے سفیر ووسیموزی میڈونسیلا نے عدالت میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔

جنوبی افریقہ کی استدعا

جنوبی افریقہ نے اپنی درخواست میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی ہے کہ وہ اسرائیل کو اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے حکام، حقائق معلوم کرنے کے مشن، تفتیش کاروں اور صحافیوں کی غزہ بھر میں بلا رکاوٹ رسائی یقینی بنانے کا حکم دے۔ ان حکام اور صحافیوں کو غزہ کے زمینی حالات کا اندازہ لگانے اور شہادتوں کو موثر طور سے محفوط کرنے اور انہیں اصل حالت میں برقرار رکھنے کے قابل ہونا چاہیے۔

اسرائیل یہ یقینی بنائے کہ اس کی فوج ایسی رسائی میں رکاوٹ نہ ڈالے۔

نیدرلینڈز کے لیے جنوبی افریقہ کے سفیر ووسیموزی میڈونسیلا نے عدالت میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ فلسطینی لوگوں کی متواتر ہلاکتوں کے باعث نسل کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوا۔

غزہ میں 35 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور بیشتر علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔

انہوں نے جنوری میں اسرائیل کے خلاف اپنے ملک کی درخواست پر غزہ میں انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی یقینی بنانے کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس عدالت اور سلامتی کونسل کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے ایک اور وکیل وان لوئے نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ غزہ کو نقشے سے مٹانے کے لیے اسرائیل کا اعلانیہ مقصد پورا ہونے کو ہے۔

غزہ میں ہولناک جرائم اور مظالم کی شہادتیں تباہ کر دی گئی ہیں اور ان جرائم کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں چھوڑا گیا جو کہ انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

جنوبی افریقہ کے ایک اور وکیل میکس ڈو پلیسس نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اعلان کردہ محفوظ علاقے کسی طور محفوظ نہیں ہیں۔ عسکری حملوں اور انسانی ساختہ قحط کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے۔

جنوبی افریقہ نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ اپنے نئے عبوری احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے اسرائیل کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے۔