کرغزستان میں تشددکا نشانہ بننے والے پاکستانی طالب علموں کا سفارت خانے اور وزارت خارجہ کے کردار پر شدید ردعمل

بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر سفیر تعینات کرنے کی روایت ہے‘ایسے لوگوں کو سفیر مقررکیا جاتا ہے جنہیں فارن سروس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیاسی بنیادوں پر تعینات ہونے والے سفیر حضرات صرف موج مستی کے لیے جاتے ہیں انہیں پاکستان یا اس ملک میں مقیم پاکستانی شہریوں کے مفادات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی. سابق سیکرٹری خارجہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 19 مئی 2024 12:45

کرغزستان میں تشددکا نشانہ بننے والے پاکستانی طالب علموں کا سفارت خانے ..
بشکیک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19مئی۔2024 ) کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی طالب علموں پر مقامی مسلح افراد کے حملوں پر پاکستان کے سفارت خانے کے کردار پر طالب علموں نے شدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ جب مقامی افراد ہوسٹلزمیں گھس کر بلاامتیازطلبہ وطالبات کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنارہے تھے تو بشکیک میں قائم پاکستانی سفارت خانے میں کوئی فون کا جواب دینے کے لیے بھی موجود نہیں تھا.

برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کو متاثر طلبہ وطالبات نے کچھ ویڈیوزاو رآڈیو بجھوائی ہیں جبکہ دوطالبات نے جن کی شناخت ان کے تحفظ کے لیے ظاہر نہیں کی گئی ان کی فون کالزسے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بشکیک میں پاکستانی سفارت خانے کا ہی یہ رویہ نہیں تھا بلکہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی جانب سے بھی طالب علموں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے کی جانے والی فون کالزپر کوئی جواب نہیں دیا گیا اور سوشل میڈیا پر ویڈیوزسامنے آنے کے بعد وزارت خارجہ اور پاکستانی سفارت خانے کو ہوش آیا جب ساری ہنگامہ آرائی ہوچکی تھی.

پاکستانی صحافی کو فون کال کرنے والی دوطالبات نے بتایا کہ مسلح افراد ہوسٹل کے دروازے توڑکر داخل ہوئے اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اسی دوران مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں پہنچے اور انہوں نے 30کے قریب طالبات کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور چلے گئے کال کے دوران پس منظرمیں لڑکیوں کے رونے کی آوازیں آرہی ہیں جبکہ کچھ خوفزدہ طالبات کہہ رہی ہیں کہ ”وہ پھر آرہے ہیں‘وہ ہمیں مار دیں گے“طالب علموں کا کہنا ہے کہ بشکیک میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے رابط کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں .

تارکین وطن کو پاکستان کے سفارت خانوں سے ہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہے کہ کسی ہنگامی صورتحال میں سفارت خانوں اور قونصل خانوں کا رویہ ”بیوروکریٹک‘ہوتا ہے اس پر سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں فارن سروس کو پروفیشنل بنانے کے لیے اقدامات نہیں کیئے جاتے اکثرممالک میں سفیر سیاسی بنیادوں پر تعینات کیئے جاتے ہیں جنہیں فارن سروس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیاسی بنیادوں پر تعینات ہونے والے سفیر حضرات صرف موج مستی کے لیے جاتے ہیں انہیں پاکستان یا اس ملک میں مقیم پاکستانی شہریوں کے مفادات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی.

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بشکیک میں مقیم پاکستانی طالبہ حسینہ نعمان بتایا کہ ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس مقامی کرغستانی ان کے ہوسٹل پر حملہ آوار ہوئے اور ان کے کمرے کے دروازے کا لاک توڑا، ساتھی طالبہ کو بالوں سے پکڑ کر تھپڑ مارے اس حملے میں حسینہ نعمان خود بھی زخمی ہوئی ہیں انہوں نے بتایا کہ حملہ آواروں نے لوٹ مار بھی کی ہے ہاسٹلوں میںبتایا جارہا ہے دراصل 13 مئی کو بشکیک میں مقامی افراد اور غیر ملکی طلبہ کے درمیان ایک جھگڑا ہوا جس کے بعد گذشتہ شب مشتعل ہجوم نے غیر ملکی طلبہ کے ہوسٹلز اور فلیٹس پر دھاوا بولا کرغزستان میں پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے ایک ویڈیو میں بتایا کہ 14 پاکستانی طلبا زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک پاکستانی طالب علم شاہزیب بشکیک کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں انہوں نے بتایا کہ کرغزستان سے متعلق سوشل میڈیا پر آنے والی خبریں بے بنیاد ہیں حملوں میں ملوث چار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے.

دوسری جانب کرغزستان کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صورتحال اب قابو میں ہے جبکہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

اطلاعات کے مطابق بشکیک کے پولیس حکام نے مذاکرات کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ کرغزستان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں سمیت 29 غیر ملکی افراد کو طبی امداد فراہم کی گئی ہے گلاب خان کرغزستان کے شہر بشکیک میں میڈیکل کالج کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے پاکستانی سمیت کئی غیر ملکی طلبہ پر تشدد کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مقامی لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کے ہاسٹلز کو نشانہ بنانا شروع کردیا میڈیکل کالج کے طالب مصطفی خان نے بتایا کہ رات گئے اچانک شور شرابہ شروع ہوا اور ہمارے کمروں میں درجنوں کی تعداد میں مسلح لوگ داخل ہوئے اور ہم پر تشدد کیا میں نے اپنے روم میٹ کے ہمراہ ہاسٹل کے کمرے کا دروازہ لاک کرنے کی کوشش کی مگر وہ دروازہ توڑ کر اند گھس گئے وہ بتاتے ہیں کہ ہم تینوں کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا.

محمد بلال چند دیگر پاکستانیوں کے ساتھ یونیورسٹی کے قریب ہی ایک فلیٹ کرائے پر لے کر وہاں رہتے ہیں انہوں نے” بی بی سی“ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ غیر ملکی طلبا اور مقامی لوگوں کے بیچ لڑائی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے ہوسٹلوںاور فلیٹس پر حملہ کیا ہے ان کے ہاتھ جو طالب علم ہاتھ آ رہا تھا اس کی قومیت پوچھے بغیر اسے مار رہے تھے بلال بتاتے ہیں کہ مشتعل افراد نہ صرف توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کر رہے تھے بلکہ مسلسل اپنے ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر لائیو بھی تھے ان ہوسٹلوں میں زیادہ تر پاکستانی رہائش پذیر ہیں تاہم کم تعداد میں بنگلہ دیش اور مصر کے طلبا بھی رہائش پذیر ہیں چند بھارتی اور پاکستانی طلبا نے ہوسٹلوں، فلیٹوں کے علاوہ گھر بھی کرائے پر لے رکھے ہیں.

بلال دعوی کیا کہ پاکستانی طالب علم ان کا خصوصی نشانہ تھے کیونکہ جہاں جہاں انہیں پاکستانیوں کا پتا لگا ہے، ان ہوسٹلوں، فلیٹوں اور گھروں تک میں گھس کر ان پر بھی حملہ کیا گیا اور طلبہ کو مارا پیٹا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ جو طالبعلم لڑکیاں انہیں باہر گھومتی یا کہیں آتی جاتی نظر آئیں ہیں ان کے ساتھ بھی بدتمیزی اور ہراساں کیا گیا ہے میڈیکل کی طالبہ ورشا گجر بتاتی ہیں کہ انہوں نے دیگر طلبہ کے ہمراہ ایک کمرے میں پناہ لی حملہ آوروں نے کمرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی ہم نے باتھ روم میں خود کو بند کر لیا تھا اور دو گھنٹے تک وہیں بند رہے ہمارے اندر اتنی جرات نہیں تھی کہ ہم باہر نکلتے کیونکہ باہر مسلسل شور شرابہ ہو رہا تھا اور دروازے پر لاتیں ماری جا رہی تھیں ورشا کہتی ہیں کہ اس وقت پاکستانی طلبہ صدمے میں ہیں ہمارے ماں باپ، بہن بھائی پریشان ہیں اس وقت کسی کا کچھ پتا نہیں چل رہا.

تشدد کا نشانہ بننے والی طالبہ کائنات ملک کہتی ہیں کہ وہ اس واقعے کو ساری زندگی نہیں بھول سکیں گی مجھے میری والدہ کہتی ہیں کہ بس اب اور نہیں پڑھنا اور فوراواپس آجاﺅ میری والدہ نے سب کچھ میری تعلیم پر لگا دیا اب کیا ہوگا یہ سوچ کر میں پریشان ہوں بی بی سی کا کہنا ہے کہ 13 مئی کو بشکیک کے مصطفی کیفے کے اردگرد ہاسٹلوں میں سے ایک میں غیر ملکیوں کی جانب سے متعدد مقامی باشندوں کو زد و کوب کرنے اور مارنے کا دعویٰ کیا گیا پولیس کو اطلاع دی گئی کہ ہاسٹل میں رہنے والوں اور مہمانوں کے درمیان لڑائی ہوئی ہے.

اس حوالے سے ٹیلی گرام پر پولیس نے بتایا کہ وہ ہاسٹل میں ہونے والی لڑائی کے بارے میں جانتے ہیں تمام افراد کو پولیس سینٹر لے جایا گیا جہاں انہوں نے اپنے اپنے بیان دیے ٹیلی گرام پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تنازعہ کی وجوہات کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس کی تحقیقات جاری ہیں مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق 13 مئی کے واقعے کے بعد بشکیک میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی خبریں پھیلیں جس نے مقامی افراد کو غیر ملکیوں کے حوالے سے مشتعل کیا.

رپورٹ کے مطابق 17 مئی کی شام سینکڑوں افراد طلبہ کے ہاسٹل کے قریب احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ شکیک میں میڈیکل یونیورسٹیوں کے کچھ ہاسٹلز اور پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے طلبہ کی نجی رہائش گاہوں پر حملے کیے گئے ان ہاسٹلز میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ رہائش پذیر ہیں مار پیٹ کا نشانہ بننے والے طلبہ میں پاکستانیوں اوربھارتی سمیت دیگر ایشیائی، مصری طلبا اور غیر ملکی بھی شامل تھے کرغزستان کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ درج کیا قانون نافذ کرنے والے افسران نے تصادم میں شریک افراد کو حراست میں بھی لیا ہے تاہم اس کے باوجود مظاہرین کی تعداد بڑھتی گئی اور تقریباً تین سو افراد ہاسٹلوں کے باہر جمع ہو گئے جس کے بعد پوری پولیس فورس کو طلب کر لیا گیا اور تقریباً 50 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا تھا جنہیں بعد میں رہا کر دیا بشکیک میں مظاہروں کی وجہ سے کچھ سڑکیں بلاک کر دی گئیں تھیں.