وزیراعلیٰ سندھ کا ملیر ایکسپریس وے، جام صادق پل، اسپورٹس کمپلیکس سمیت 7 میگا پراجیکٹس کا دورہ،پیش رفت کا جائزہ لیا

سید مراد علی شاہ کاکے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی تنصیبات کی منتقلی پر برہمی کا اظہار،کورنگی کاز وے روڈ پر ملبہ اور کچرا پھینکنے سے روکنے میں ناکامی پر ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا معطل کورنگی کاز وے پر کسی نے کچرا پھینکا تو ڈی سی اور ایس ایس پی کے خلاف کارروائی ہو گی،مراد علی شاہ کی ایس ایس پی کو کورنگی کاز وے پراپنا کیمپ آفس بنانے کی ہدایت

اتوار 19 مئی 2024 19:30

�راچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2024ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اتوار کی صبح اپنے دن کا آغاز سات مختلف زیر تعمیر منصوبوں کے دورے سے کیا، منصوبوں کی پیشرفت کا جائزہ لیا اور ملیر ایکسپریس وے اور کریم آباد انڈر پاس کی تکمیل میں تاخیر کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ہدایات دیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی تنصیبات کی منتقلی پر برہمی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے ملیر ایکسپریس وے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی ہے۔

سید مراد علی شاہ نے کورنگی کاز وے روڈ پر ملبہ اور کچرا پھینکنے سے روکنے میں ناکامی پر ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا کو معطل کر دیا اور ایس ایس پی کورنگی کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر اس علاقے کی نگرانی کریں جہاں تین مختلف منصوبے ملیر ایکسپریس وے، نیو جام صادق پل اور کورنگی کاز وے پل تعمیر ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ کے ہمراہ صوبائی وزرا، شرجیل انعام میمن، سید ناصر شاہ، سعید غنی اور میئر کراچی مرتضی وہاب بھی تھے۔

چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ، کمشنر کراچی حسن نقوی، سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ، سیکریٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن، پی ڈی ملیر ایکسپریس وے نیاز سومرو، پی ڈی میگا پروجیکٹس طارق مغل اور انجینئر خالد مسرور نے وزیراعلی سندھ کو دورے کے دوران مختلف منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی۔وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ ملیر ایکسپریس وے کا منصوبہ 38.661 کلومیٹر طویل ہے جو جام صادق پل تا کاٹھوڑ(ایم نائن)تک ہے اور اس منصوبے کی شروعات 12 مئی 2022 کو کی گئی اور اس کی تکمیل کی مدت 26 ماہ تھی۔

یہ تھری پلس تھری لین (چھ رویہ)پروجیکٹ ہے اور اس میں چھ انٹرچینج ہوں گی۔ ایک سوال کے جواب میں پراجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ کورنگی تا قائد آباد تک ملیر ایکسپریس وے سیگمنٹ ون کی فزیکل پروگریس 70 فیصد ہے جبکہ سیگمنٹ ٹو قائد آباد تا کاٹھوڑ تک 30 فیصد ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس وقت ناراضگی کا اظہار کیا جب انہیں بتایا گیا کہ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے یوٹیلٹیز کی منتقلی کے باعث سیگمنٹ ون کی تکمیل میں تین ماہ کی تاخیر ہوئی ہے۔

تاخیر کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کے الیکٹرک کو اپنی باقی چار تنصیبات کو منتقل کرنا ہے جس کے لیے اسے پہلے ہی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ جام صادق پل سے کے الیکٹرک کو اپنی ہائی ٹینشن لائن (ایچ ٹی ایل)کو منتقل کرنا ہے تاکہ ملیر ایکسپریس وے سے اس کو منسلک کیا جاسکے۔ وزیراعلی سندھ کو یہ بھی بتایا گیا کہ ایس ایس جی سی کو اس سلسلہ میں اپنی تین پریشر لائنیں کم کرنی تھیں، لیکن وہ اس عمل میں تاخیر کر رہے ہیں۔

اس لیے منصوبے کا کام میں تاخیر ہورہی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد وزیراعلی ہاس میں دونوں کمپنیوں سے اپنی ملاقات طے کریں۔ وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ قائد آباد انٹر چینج کے موجودہ لوپ پر کچھ تجاوزات کے مسائل ہیں اور کچھ اراضی کے مسائل ہیں جنہیں بروقت حل کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ڈی سی ملیر کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر [قائد آباد انٹرچینج کے لوپ سی] تجاوزات ہٹائیں، اراضی کے مسائل حل کریں اور انہیں رپورٹ کریں۔ سید مراد علی شاہ نے ایس ایس پیز کورنگی اور ملیر کو ہدایت کی کہ ملیر ایکسپریس وے پر کام کرنے والے کارکنوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے۔وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ نیو جام صادق پل بی آر ٹی یلو لائن کوریڈور کا حصہ ہے۔

معاہدے میں ملیر ندی پر جام صادق پل کی تعمیر اور بی آر ٹی یلو لائن کوریڈور کے طور پر نیو جام صادق پل کی تعمیر شامل ہے۔ منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 12531 ملین روپے لگایا گیا ہے۔ منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو کام کی رفتار تیز کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ کورنگی کاز وے پر پل 6499.551 ملین روپے سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔

کاز وے 2.30 کلومیٹر طویل ہے، جس میں ایک کلومیٹر پل اور 1.30 کلومیٹر سڑک شامل ہے۔ اس میں ملیر ایکسپریس وے سے 300 میٹر کا لنک روڈ اور کریک ایونیو تک 50 میٹر کا لنک روڈ ہوگا۔ یہ تھری پلس تھری لین یعنی چھ رویہ اور تین لین رانڈ اباٹ ہوگا۔وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ اس منصوبے پر کام جولائی 2023 میں شروع کیا گیا تھا جوکہ 24 ماہ کی مدت میں مکمل کیا جائے گا۔

کورنگی کاز وے کے مقام پر ملبہ اور کچرا پھینکنے پر وزیراعلیٰ سندھ نے برہمی کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا کو فوری طور پر معطل کردیا اور ایس ایس پی کورنگی کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر نگرانی کریں تاکہ کوئی بلڈر ملبہ سڑک پر نہ پھینک سکے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایاگیاکہ ضلع وسطی میں 1350 ملین روپے کی لاگت سے ٹو پلس ٹو لین (چار رویہ)انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اس کی فزیکل پیش رفت 35 فیصد ہے۔وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ اس منصوبے کے تحت واٹر لائن بھی بچھانی ہے جس کے لیے منصوبے پر کام کی رفتار تیز کرنے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے پروجیکٹ ڈائریکٹر اور کے ڈی اے کو ہدایت کی کہ کام کو تیز کیا جائے کیونکہ اس سے ٹریفک کے ہموار بہا میں مسائل پیدا ہوئے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ بختیاری یوتھ سنٹر کے کاموں کا دائرہ کار ایک نئے پویلین کی تعمیر کے ساتھ ایک ڈریسنگ روم، پویلین کی موجودہ مرمت اور دیکھ بھال، بیٹھنے کی جگہ کے ساتھ نئے پویلین کی تعمیر، عوامی باتھ روم، کیفے ٹیریا اور جم (بائیں طرف)، بائونڈری وال کی مرمت شامل ہیں۔

کرکٹ گرانڈ کی اپ گریڈیشن جس میں تین کرکٹ پچز، جاگنگ ٹریک، اسٹیڈیم میں لائٹ کیلئے کثیرالارض ٹاور کی تنصیب، فٹ بال گرانڈ کی سیٹنگ ایریا، سڑک، پارکنگ ایریا اور واک وے کی تعمیر شامل ہے۔اس منصوبے میں دو اسٹاف کوارٹرز، ایک جنریٹر روم اور الیکٹریکل روم، 50000 گیلن واٹر سپلائی سسٹم کیلئے زیر زمین ٹینک اور نکاسی آب کا نظام بنایا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ منصوبے کا کل رقبہ 15.380 ایکڑ ہے جس میں 7.6 ایکڑ رقبے پر کرکٹ گرانڈ، 7.779 ایکڑ پر فٹ بال گرائونڈ بنایا جائے گا اور اس منصوبے کی لاگت 594 ملین روپے ہے۔وزیراعلی سندھ کو بتایا گیا کہ کیفے پیالہ(نزد گلبرگ چورنگی)سے راشد منہاس روڈ (نزد یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس)تک سڑک کی بحالی / تعمیرنو 902.131 ملین روپے کے کراچی میگا پروجیکٹ کا حصہ ہے۔

یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس سے سرینا موبائل مارکیٹ (سخی حسن)ضلع وسطی تک سڑک کو خاص طور پر عوامی مفاد کے تحت بنایا گیا ہے۔ کارڈیک اسپتال، امام کلینک اور مامجی اسپتال تک آسان رسائی فراہم کرنے کے لیے یہ بہت اہم مرکزی سڑک ہے، نیا ناظم آباد تک باآسانی راستہ ہے اور یہ کثیر آبادی والا علاقہ ہے اور اس سڑک سے سٹی ایریا تک بھی اہم رسائی ہوگی۔

یہ سڑک 4.05 کلومیٹر (ڈبل کیریج وی)طویل ہے اور اس کی چوڑائی 10 تا 11 میٹر ہے۔ سڑک کے ساتھ آر سی سی ڈرین تیار کیا گیا ہے اور الیکٹریفکیشن کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ تمام کام اس ہفتے کے آخر تک مکمل کر لیئے جائینگے۔وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ ضلع وسطی کی شاہراہ نور جہاں 6.4 کلومیٹر(عبداللہ کالج تا قلندریہ چوک)کی تعمیر نو پر 3367.735 ملین روپے کی لاگت سے ترقیاتی کام ہو رہا ہے۔

اسی کثیر آبادی والے علاقے تک آسان رسائی فراہم کرنے کے لیے یہ ایک اہم شاہراہ ہے اور یہ انٹر بورڈ آفس، کٹی پہاڑی، قصبہ کالونی، منگھو پیر، فائیو اسٹارچورنگی، سخی حسن، ناگن چورنگی، نیا ناظم آباد، نصرت بھٹو کالونی اور نارتھ کراچی تک اہم رسائی ہوگی۔ یہ منصوبہ نارتھ ناظم آباد اور نارتھ کراچی کے علاقے سے گزرنے والی ٹریفک روانی میں آسانی فراہم کرے گا۔ شاہراہ نورجہاں شاہراہ شیر شاہ سوری کی ایک متبادل سڑک ہے۔ یہ منصوبہ تقریبا مکمل ہو چکا ہے۔