دوہری شہریت والوں کو سول سرونٹ تعینات کرنے پر پابندی کا بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروادیا گیا

دوہری شہریت کے حامل سرکاری ملازمین ملکی مفاد داﺅ پر لگا دیتے ہیں اور احتساب سے بچنے کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ملک چھوڑ دیتے ہیں.رکن قومی اسمبلی نور عالم کا بل میں موقف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 23 مئی 2024 18:05

دوہری شہریت والوں کو سول سرونٹ تعینات کرنے پر پابندی کا بل قومی اسمبلی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23مئی۔2024 ) دوہری شہریت والے امیدوار کو سول سرونٹ تعینات کرنے پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں جمع کرادیا گیا ہے دوہری شہریت والے امیدوار کو سول سرونٹ تعینات کرنے پر پابندی کا بل رکن قومی اسمبلی نورعالم خان کی جانب سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا گیا ہے. بل میں موقف اپنایا گیا کہ سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت کا معاملہ سامنے آیا ہے جہاں دہری شہریت یا سٹیزن شپ رکھنے والا سول سرونٹ تقرری کا حق دار نہیں انہوں نے بل میں کہا کہ ایسے ملازمین ملکی مفاد داﺅپر لگا دیتے ہیں اور احتساب سے بچنے کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ملک چھوڑ دیتے ہیں.

(جاری ہے)

واضح رہے کہ دو دن قبل ہی نور عالم خان نے ہی توہین عدالت کے قانون کی منسوخی اور دہری شہریت رکھنے والے شخص کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا جج تعینات کرنے پر پابندی عائد کرنے کے لیے بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا تھا بل میں کہا گیا تھا کہ توہین عدالت آرڈیننس آئین سے مطابقت نہیں رکھتا، آرڈیننس مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا لہٰذا متبادل قانون سازی تک توہین عدالت کا قانون منسوخ کیا جائے.

اس کے علاوہ د±ہری شہریت والے شخص کی بطور جج تعیناتی پر پابندی کے بل میں آئین کے آرٹیکل 177، 193 اور 208 میں ترامیم تجویز کی گئی تھیں بل میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ دہری شہریت رکھنے والے شخص کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ می بطور جج تعیناتی پر پابندی عائد کی جائے. قانونی وآئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اس طرح کی کسی قانون سازی کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ آئین کے جن آرٹیکلزمیں ترمیم کا رکن قومی اسمبلی نے بل میںتذکرہ کیا ہے اس کے لیے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ حکومت کے پاس سنگل میجورٹی ہے اس لیے آئین میں یہ ترمیم ممکن نہیں موجودہ حکومت اس پر قرارداد منظور کرسکتی ہے یا صدر سے آرڈنینس جاری کرنے کی درخواست کرسکتی ہے چونکہ یہ معاملہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم سے متعلق ہے تو قرارداد کی صورت میں اس پر حکومت کو توہین عدالت جبکہ آرڈنیس کا اجراءبھی اعلی عدالتوں میں چیلنج ہوجائے گا .

انہوں نے کہا کہ بظاہر یہ بل توجہ ہٹانے کے ایک حربے سے زیادہ کچھ نہیں ہے واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو دوتہائی اکثریث کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ موجودہ حکمران اتحاد کے نامزد قائدایوان کو ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد 201 تھی جبکہ دوتہائی اکثریت کے لیے 228نشستوں کی ضرورت ہے تاہم حکمران اتحاد کے اراکین کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے کیونکہ الیکشن ٹربیونلزکے حکم پر الیکشن کمیشن نے حکمران اتحاد کے کئی اراکین کو ڈی نوٹیفائی کیا ہے جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے60سے زیادہ درخواستیں الیکشن ٹربیونلزمیں زیرالتواءہیں.