فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کے لیے ’انعام‘ نہیں، بوریل

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 24 مئی 2024 19:00

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کے لیے ’انعام‘ نہیں، بوریل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2024ء) ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ستائیس رکنی یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوزیپ بوریل کے مطابق، ''فلسیطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا نہ صرف یہ کہ حماس کے لیے کوئی انعام نہیں بلکہ حقیقت تو اس کے بالکل برعکس ہے۔‘‘

تین یورپی ممالک آئرلینڈ، اسپین اور ناروے نے، جن میں سے ناروے یورپی یونین کا رکن نہیں، اسی ہفتے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ 28 مئی کو ریاست فلسطین کے وجود کو باقاعدہ طور پر تسیم کر لیں گے۔

غزہ کی جنگ: نیتن یاہو اور حماس کے رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست

ان ممالک نے اپنے اس باہم مربوط اقدام کا مقصد یہ بتایا تھا کہ یوں غزہ کی جنگ میں سات ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ان اسرائیلی عسکری کارروائیوں کو رکوانے میں بھی مدد ملے گی، جو اسرائیل نے سات اکتوبر کے روز حماس کے دہشت گردانہ حملے کے فوراﹰ بعد شروع کی تھیں۔

(جاری ہے)

اوسلو، ڈبلن اور میڈرڈ میں ان تینوں یورپی ممالک کی حکومتوں نے اپنے اس سیاسی فیصلے کے حق میں یہ دلیل بھی دی تھی کہ فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ان امن مذاکرات کو بحال کرنے میں بھی مدد ملے گی، جو گزشتہ ایک عشرے سے جمود کا شکار ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی حماس نہیں ہے، یورپی دلیل

یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اہلکار بوریل نے جمعہ 24 مئی کو میڈرڈ میں کہا، ''فلسطینی خود مختار انتظامیہ تو حماس نہیں ہے۔

اس سوچ کے برعکس ان دونوں کے مابین تو شدید مخاصمت پائی جاتی ہے۔‘‘

غزہ جنگ کے بعد فلسطینیوں کا مستقبل، عرب ممالک کیا سوچتے ہیں؟

یورپی یونین نے امریکہ، برطانیہ اور کئی دیگر ممالک کی طرح حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ یوزیپ بوریل نے کہا کہ حماس کے برعکس محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی خود مختار انتظامیہ سے تو یورپی یونین مذاکرات کرتی رہی ہے، یونین اس اتھارٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتی رہی ہے اور ساتھ ہی اس نے فلسطینی انتظامیہ کے لیے مالی وسائل بھی مہیا کیے ہیں۔

یوزیپ بوریل کے الفاظ میں، ''جب بھی کوئی (ملک) فلسطینی ریاست کی مدد کا فیصلہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ تو اسرائیل کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس فیصلے کی شکل بدل کر اسے سامیت دشمن حملہ بنا دیا جائے۔‘‘

یورپی یونین کے اسرائیل کو اب تک تسلیم کر چکے رکن ممالک

ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کی اب تک سات ریاستیں ایسی ہیں، جو فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر چکی ہیں۔

ان میں سے پانچ ممالک سابقہ مشرقی یورپی بلاک کی وہ ریاستیں ہیں، جنہوں نے فلسطینی ریاست کو 1988ء میں ہی تسلیم کر لیا تھا۔

شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج اور حماس کے مابین شدید جھڑپیں

ان کے علاوہ قبرص وہ ملک ہے، جس نے یورپی یونین میں شمولیت سے پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا۔ شمالی یورپی ملک سویڈن نے ایسا 2014ء میں کیا تھا۔

یورپی یونین کی رکن ریاست چیک جمہوریہ کا کہنا ہے کہ ماضی کی ریاست چیکوسلوواکیہ نے فلسیطینی ریاست کو 1988ء میں تسلیم تو کر لیا تھا، تاہم تب چیک جمہوریہ چیکوسلوواکیہ کا حصہ ہوتی تھی اور اب وہ ایک مختلف اور خود مختار ملک ہے اور اسی لیے اس گزشتہ فیصلے کا موجودہ چیک ریاست پر اطلاق نہیں ہوتا۔

اسرائیل بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرے، مغربی اقوام کا مطالبہ

جہاں تک سلوواکیہ کا تعلق ہے، جو چیکوسلوواکیہ کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی دوسری ریاست ہے، تو اس کا کہنا ہے کہ 1992-93 میں جب سلوواکیہ آزاد ہو رہا تھا، تو اسی وقت دو ریاستوں کے طور پر سلوواکیہ اور فلسطین نے ایک دوسرے کے ریاستی وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کی تصدیق کر دی تھی۔

اسی لیے براتسلاوا میں قائم فلسطینی سفارت خانہ 2006ء سے پوری طرح کام کر رہا ہے۔

اسرائیل کے قیام کی سالگرہ کے دن بھی رفح میں کارروائی جاری

جہاں تک یورپی یونین کی رکن ریاستوں مالٹا اور سلووینیہ کا تعلق ہے، تو ان کا کہنا ہے کہ فوری طور پر تو نہیں لیکن آئندہ وہ بھی آئرلینڈ اور اسپین جیسے رکن ممالک کی تقلید کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتی ہیں۔

عالمی سطح پر اقوام متحدہ میں نمائندگی کے حامل کُل تقریباﹰ 190 ممالک میں سے قریب 140 ایسے ہیں، جو اب تک فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔

م م / ع ا، ش ر (روئٹرز، اے ایف پی)