انتخابات سے متعلق کیسز کو جلد مقرر کر رہے ہیں،چیف جسٹس

ہر کیس گھنٹوں سننا شروع کر دیں تو زیر التوا کیسز کی تعداد میں پہاڑ جتنا اضافہ ہو گا، ایک کیس ایک سو پچپن گھنٹے سنیں گے تو سپریم کورٹ چوک ہو جائے گی،قاضی فائز عیسیٰ کے سماعت کے دوران ریمارکس

Faisal Alvi فیصل علوی بدھ 3 جولائی 2024 16:53

اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔03جولائی 2024 ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں انتخابات سے متعلق کیسز کو جلد مقرر کر رہے ہیں، ہر کیس گھنٹوں سننا شروع کر دیں تو زیر التوا کیسز کی تعداد میں پہاڑ جتنا اضافہ ہو گا،قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 لودھراں میں دوبارہ گنتی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایک کیس ایک سو پچپن گھنٹے سنیں گے تو سپریم کورٹ چوک ہو جائے گی۔سماعت کے دوران شہزاد شوکت نے کہا کہ جیت کا تناسب 6 ہزار سے زائد ووٹ کا تھا، 7 ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے۔ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ جیت کا تناسب 5 فیصد سے کم ہو تو دوبارہ گنتی کی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

آر او نے اپنے جواب میں کہا دوبارہ گنتی کی درخواست پر توجہ نہیں کر سکا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین میں دوبارہ گنتی کا حق دیا گیا ہے ہم اس اختیار کو کیسے ختم کر سکتے ہیں۔ ہر کیس گھنٹوں سننا شروع کر دیں تو زیر التوا کیسز کی تعداد میں پہاڑ جتنا اضافہ ہو گا۔بعدازاں عدالت نے این اے 154 لودھراں میں دوبارہ گنتی سے متعلق کیس کی سماعت 8 جولائی تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں، سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ بنچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے تھے۔جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

جسٹس عرفان نے کہا کہ جو آزاد امیدوار کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ قانون تو کہتا ہے کہ 3 روز میں سیاسی جماعت میں شامل ہو، آزاد امیدوار کیسے رہیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدوار اگر شامل کسی جماعت میں نہیں ہوتے تو آزاد ہی رہیں گے۔اسی کے ساتھ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا تھاکہ میں 15 منٹ میں جواب الجواب ختم کر دوں گا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی تھی۔