ڈائنونیکس دنیا کا سب سے تیز ترین ڈائناسور قرار

ڈائنونیکس کی باقیات کے تجزیے سے یہ پتہ چلا کہ یہ جانور تیز اور چست تھا،رپورٹ

جمعرات 1 مئی 2025 17:58

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 مئی2025ء)ڈائناسورز کے حوالے سے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کافی سست جانور تھے تاہم لائیو سائنس کی رپورٹ کے مطابق 1964 کے موسم گرما میں جب جان آسٹروم کی سربراہی میں ماہرین حیاتیات کی ایک ٹیم نے ڈائنونیکس نسل کے ایک ڈائناسور کی باقیات دریافت کیں جس نے لوگوں کے ڈائناسورز کے بارے میں عام خیال کو غلط ثابت کردیا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈائنونیکس کی باقیات کے تجزیے سے یہ پتہ چلا کہ یہ جانور تیز اور چست تھا۔رپورٹ کے مطابق 1964 میں ہونے والی اس دریافت ایک بڑی سائنسی تبدیلی تھی جس نے ڈائناسورز کے بارے میں انسان کی سوچ کو نئے سرے سے متعین کیا۔رپورٹ میں لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ماہر حیاتیات سوسنہ میڈمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اورنیتھومیموسوریا نسل کے ڈائناسورز ممکنہ طور پر سب سے تیز رفتار ڈائنوسار تھے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ کچھ ماہرین نے ڈائناسورز کی اس نسل کو ان کی میں موجود ایسی خوصیات کی وجہ سے جو ان کے تیز رفتار ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، انہیں شتر مرغ جیسا کہا ہے۔رپورٹ کے مطابق عام طور پر اگر کسی جاندار کے لمبے، پتلے اعضا ہیں اور پٹھے ان اعضا کے اوپری حصے کے قریب واقع ہیں تو اس کی ٹانگ بنیادی طور پر پینڈولم کی طرح کام کرتی ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ نسبتا تیزی سے حرکت کر سکتا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا اہم ہے کہ 1970 کی دہائی کے آغاز میں حیوانیات کے پروفیسر رابرٹ میک نیل الیگزینڈر نے جانوروں کی نقل و حرکت کا مطالعہ کرنے کیلیے فزکس اور انجینئرنگ کو لاگو کرکے بائیو مکینکس کے شعبے کا آغاز کیا۔انہوں نے کرہ ارض پر موجود جانوروں کا مشاہدہ کرکے ان کی ٹانگوں اور قدموں کی لمبائی کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا جس سے جانور کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔رابرٹ میک نیل الیگزینڈر نے بتایا کہ جانور ٹانگیں جتنی لمنی ہوتی ہیں وہ انتی ہی تیزی سے چلتا یا دوڑتا ہے۔

متعلقہ عنوان :