اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) این بی1.8.1 کے نام سے جانا جانے والا یہ ویریئنٹ سب سے پہلے جنوری میں سامنے آیا تھا اور عالمی ادارہ صحت نے اس کی درجہ بندی بطور 'ویریئنٹ انڈر مانیٹرنگ‘ کی تھی یعنی کوورنا کی ایسی تبدیل شدہ شکل، جس کی نگرانی ہونی چاہیے۔
جرمنی میں صحت عامہ کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کے مطابق جرمنی میں یہ قسم پہلی بار مارچ کے اواخر میں سامنے آئی تھی اور اب تک صرف کہیں کہیں ہی ظاہر ہوئی ہے۔
اس انسٹیٹیوٹ کی طرف سے جاری کر دہ بیان کے مطابق، ''یہاں کسی رجحان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کووڈ کیسوں کی تعداد کم ہے اور اسی سبب ان کی سیکوئنسنگ (کورونا وائرس کی جانچ) بھی کم ہو رہی ہے۔‘‘
سوئٹزرلینڈ کی باسل یونیورسٹی سے منسلک بائیو فزیسٹ (حیاتیاتی طبیعیات دان) رچرڈ نیہر کا کہنا ہے کہ یہ قسم (جرمنی میں) زور پکڑے گی یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دیگر اقسام کس طرح پھیلیں۔
(جاری ہے)
آٹھ جون کو ختم ہونے والے ہفتے میں، جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے کووڈ کے 698 نئے کیسز کا اندراج کیا۔ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں یہ معمولی اضافہ ہے لیکن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ تعداد زیادہ نہیں ہے۔ تاہم محدود ٹیسٹنگ کی وجہ سے امکان ہے کہ بہت سے انفیکشن کا پتہ ہی نہ چل رہا ہو۔
نکاسی کے پانی میں وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ
نکاسی یا گندے پانی کی جانچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران SARS-CoV-2 وائرس کی سطح میں معمولی اضافہ ہوا ہے مگر یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔
بائیوفزیسٹ نیہر کے مطابق، نئی این بی 1.8.1 قسم مشرقی ایشیا میں غالب ایکس ڈی وی 1.5 ویریئنٹ سے ہی نکلی ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا نے نیشنل ایڈمنسٹریشن آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ مئی کے آخر تک یہ نئی قسم چین میں غالب قسم تھی۔
باسل یونیورسٹی سے منسلک بائیو فزیسٹ رچرڈ نیہر کا مزید کہنا تھا، '' دیگر ویریئنٹس کے مقابلے میں اس ویریئنٹ کی فریکوئنسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا این بی 1.8.1 اس حوالے سے زیادہ متعدی ہے کہ اس کا انفیکشن دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ثانوی انفیکشن پیدا کرتا ہے۔‘‘
زیادہ سنگین بیماری کا کوئی ثبوت نہیں
چینی حکام نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ این بی 1.8.1 زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ بات ڈبلیو ایچ او کے اس تخمینے سے مطابقت رکھتی ہے کہ جن ممالک میں یہ قسم بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے وہاں کیسز اور اسپتالوں میں داخل ہونے کی تعداد میں اضافے کے باوجود، فی الحال اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ دیگر پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتی ہے۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فی الحال منظور شدہ کووڈ 19 ویکسینز این بی 1.8.1 کی وجہ سے ہونے والی شدید بیماری سے بھی تحفظ فراہم کریں گی۔
ادارت: امتیاز احمد