موٹاپا لاغری سے بڑھ کر غذائی قلت کی سب سے بڑی وجہ قرار

غذائی قلت اب صرف کم وزن والے بچوں تک محدود نہیں رہی، موٹاپابھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے ،اقوام متحدہ

بدھ 10 ستمبر 2025 13:39

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2025ء) یونیسف کی غذائیت سے متعلق رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر موٹاپا پہلی مرتبہ کمزوری پر غالب آ گیا ہے اور یہ بچوں اور نوعمروں میں غذائی قلت کی سب سے عام صورت بن چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق، 5 سے 19 برس کی عمر کے گروپ میں کمزوری کی شرح سال 2000 میں تقریبا 13 فیصد تھی جو کم ہو کر 9اعشاریہ 2 فیصد رہ گئی، جبکہ موٹاپا اسی مدت میں 3 فیصد سے بڑھ کر 9اعشاریہ 4 فیصد ہو گیا ہے۔

اس وقت بیشتر علاقوں میں موٹاپا لاغری سے زیادہ عام ہے، البتہ صحرائے افریقہ کے جنوبی حصے اور جنوبی ایشیا اس سے مستثنی ہیں۔یونیسف جرمنی کے مطابق، یہ نتائج 190 سے زائد ممالک کے ڈیٹا سے اخذ کیے گئے ہیں، جن میں گھریلو سروے، اندازے، پیش گوئی پر مبنی ماڈلز اور دیگر تحقیقات شامل کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق، زیادہ آمدنی رکھنے والے ملکوں میں نوجوانوں میں موٹاپے کی شرح نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

چلی میں 27 فیصد اور امریکا میں 21 فیصد۔ جرمنی میں 5 سے 19 برس کے ہر چار میں سے ایک بچہ یا نوجوان زائد الوزن ہے، جو 2000 میں 24 فیصد سے معمولی بڑھ کر 2022 میں 25 فیصد ہو گیا، جبکہ موٹاپے کی شرح 8 فیصد پر برقرار رہی ہے۔یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، کیتھرین رسل نے کہاکہ غذائی قلت اب صرف کم وزن والے بچوں تک محدود نہیں رہی۔ موٹاپا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے ،جو بچوں کی صحت اور نشوونما پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ضرورت سے زیادہ پروسیس شدہ غذائیں آہستہ آہستہ پھلوں، سبزیوں اور پروٹینز کی جگہ لے رہی ہیں، اس اہم مرحلے پر بچوں کی نشوونما، ذہنی ارتقا اور ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ سستی اور حد سے زیادہ پراسیس شدہ غذائیں اور فاسٹ فوڈ، جن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے، موٹاپے کی شرح بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ موٹاپا اسکول میں حاضری، خود اعتمادی اور سماجی شمولیت پر اثر ڈال سکتا ہے، اور اگر یہ بچپن یا نوعمری سے جڑ پکڑ لے تو اس کا علاج اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔