کیا مصنوعی ذہانت معذور افراد کے لیے برابری کا سبب بن سکتی ہے؟

یو این پیر 13 اکتوبر 2025 00:15

کیا مصنوعی ذہانت معذور افراد کے لیے برابری کا سبب بن سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اکتوبر 2025ء) مصنوعی ذہانت دنیا بھر میں لاکھوں جسمانی معذور افراد کی زندگی کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ان دنوں انڈیا کے ساحلی شہر گوا میں منعقدہ ٹیکنالوجی کے میلے نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح مصنوعی ذہانت سے کام لے کر معذور افراد کو اپنی روزمرہ زندگی پر بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔

پرپل فیسٹ نامی اس میلے میں ایسے آلات نمائش کے لیے پیش کیے گے ہیں جنہیں جسمانی معذور افراد کے تجربات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔

ان میں بات چیت کرنے میں مددگار سکرین ریڈرز، ایڈاپٹیو ڈیش بورڈ اور موقع پر الفاظ کو تحریری صورت دینے والے آلات ناصرف معذور افراد کو دوسروں سے رابطوں میں سہولت دیتے ہیں بلکہ ان کے لیے زندگی میں نئے امکانات بھی کھولتے ہیں۔

(جاری ہے)

پرپل فیسٹ میں پیش کردہ مصنوعی ذہانت کے آلات سے جسمانی معذور افراد کو اپنی زندگی پر اختیار حاصل کرنے، سیکھنے اور قیادت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

© UN News/Rohit Upadhyay

تعلیم تک مساوی رسائی

سوریشری رہانے پیدائشی طور پر ٹیڑھے پاؤں اور اضافی اعضا سمیت کئی طرح کی جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔

وہ ایک ایسے خاندان میں پلی بڑھیں جہاں معذوری روزمرہ زندگی کا حصہ تھی، اس لیے انہوں نے اسے اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا بلکہ دنیا کو دیکھنے کا ایک مختلف زاویہ جانا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے اساتذہ انہیں کہا کرتے تھے کہ کام تلاش ہی نہ کرو بلکہ انہیں پیدا کرو۔ اسی لیے انہوں نے سیکھا کہ قیادت بجائے خود شمولیت ہوتی ہے۔

رہانے اب ایئربک کینوس نامی ٹیکنالوجی پلیٹ فارم کی بانی اور سی ای او ہیں جو تعلیمی اداروں کے لیے ڈیجیٹل ایئربکس کی تیاری میں مہارت رکھتا ہے۔

جب وہ اپنی کمپنی بنا رہی تھیں تو انہیں بنیادی سہولیات تک عدم رسائی، مالی مدد کے حصول میں متعصبانہ رویوں اور مشکل تعلیمی نظام جیسی رکاوٹوں کا سامنا ہوا۔

اس وقت وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نئی دہلی کے قریب نیوٹن سکول آف ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کر رہی ہیں جہاں وہ شمولیتی تعلیمی ڈیزائن اور مصنوعی ذہانت پر مبنی سیکھنے کے آلات تیار کر رہی ہیں جو ہر طالبعلم کی رفتار سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت تعلیم تک مساوی رسائی کو ممکن بن سکتی ہے لیکن اس کے لیے متنوع لوگوں کو سکھانے کی تربیت دینا ہو گی۔ بصورت دیگر پرانا تعصب نئی شکل میں سامنے آتا رہے گا۔

© UN News

معذوری کا خاتمہ

مصنوعی ذہانت بولنے میں دقت کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے ان کی آواز کو الفاظ میں بدلنے والے آلات سے لے کر اشاروں سے چلنے والی وہیل چیئر تک بہت سی چیزوں کی تیاری میں مدد دے کر جسمانی معذور لوگوں کے لیے ان رکاوٹوں کو توڑ رہی ہے جنہیں کبھی مستقل سمجھا جاتا تھا۔

'اسسٹیک فاؤنڈیشن' کی سی ای او پرتیک مدھو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت لوگوں کو مساوی مواقع دینے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب دنیا اس ٹیکنالوجی کے باعث روزگار کے خاتمے کی فکر میں غلطاں ہے تو اسی وقت یہ ٹیکنالوجی جسمانی معذور افراد کے لیے نئی نوکریاں پیدا کر رہی ہے۔

انڈیا کے شہر ممبئی میں نابینا افراد کے لیے زیویئر ریسورس سنٹر نامی ادارے کے مشیر کیتن کوٹھاری بتاتے ہیں کہ کس طرح مصنوعی ذہانت کے آلات نے انہیں اپنے کام میں مکمل خودمختاری دی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے لیے کسی دستاویز کو فارمیٹ کرنا اور موقع پر الفاظ کو تحریری صورت دینا بہت آسان ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایپس کے ذریعے بصری مناظر کی تفصیل بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اگرچہ پرپل فیسٹ میں زیادہ تر انڈیا کے کاروباری افراد شریک ہیں لیکن، جیسا کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی رابطہ دفتر کی تشرنگ دیما کہتی ہیں، یہ کسی ایک ملک کی داستان نہیں بلکہ عالمگیر تبدیلی ہے۔ شمولیت کا تعلق صرف قوانین یا بنیادی ڈھانچے سے نہیں بلکہ یہ سوچ اور مشترکہ طریق کار سے ہے۔ کام کا مستقبل صرف لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ مل کر تیار کیا جانا چاہیے۔