جنوبی افریقہ: سیکس ورک کو قانونی قرار دیا جائے گا؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 12 اکتوبر 2025 20:20

جنوبی افریقہ: سیکس ورک کو قانونی قرار دیا جائے گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اکتوبر 2025ء) کونی ماتھے نے کبھی خود کو سیکس ورکر نہیں سمجھا، تاوقتیکہ ایک دوست نے اس کی وضاحت کی۔ وہ اس وقت 19 سال کی، دو بچوں کی اکیلی ماں تھی جو زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ وہ ایک شادی شدہ شخص کے ساتھ رہتی تھیں، جس نے ان کے لیے کیپ ٹاؤن کے ایک خوشحال علاقے میں ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لیا ہوا تھا۔

کونی کی دوست، جو کہ خود ایک سیکس ورکر ہے، نے کونی کو سمجھایا، ''یہ تمہارا بوائے فرینڈ نہیں ہے، یہ تو سیکس ورکر ہے۔ وہ صرف تمہارے پاس جنسی تعلق بنانے کے لیے آتا ہے، تمہیں کھانا کھلاتا ہے اور کرایہ ادا کرتا ہے۔‘‘

کونی نے کئی متبادل پر غور کیا۔ اس نے ریٹیل، ہوٹلنگ اور کال سینٹر میں کام کرنے کی کوشش کی، مگر یہ کبھی بھی اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتے تھے۔

(جاری ہے)

کل وقتی سیکس ورکر کے طور پر کام کرنے کا مطلب تھا کہ اب وہ اپنے بوائے فرینڈ پر انحصار نہیں کرے گی۔ اور اسے زیادہ مالی تحفظ اور خودمختاری مل سکتی ہے۔

کونی اس کام کو خطرناک قرار دیتی ہیں، کیونکہ مسلسل پولیس کی ہراسانی اور چھاپوں کا خوف لاحق رہتا ہے۔ انہیں ایک دن جوہانسبرگ میں ایک قحبہ خانہ چلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

گرفتاری کے دوران انہیں کپڑے اتارنے پر مجبور کیا گیا اور پولیس اہلکاروں نے اُس کا جنسی استحصال کیا۔

رہائی کے بعد، کونی کو پتا چلا کہ اس کی تمام جمع پونجی چوری ہو چکی تھی، غالباً پولیس نے لے لی تھی، مگر اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔

یہ تلخ تجربہ انہیں سیکس ورکرز ایجوکیشن اینڈ ایڈووکیسی ٹاسک فورس(سویٹ) تک لے گیا، جو جنوبی افریقہ میں سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ہے۔

کونی اب سویٹ کی قومی کوآرڈینیٹر ہیں، جو سیکس ورک کو قانونی قرار دینے کی تحریک چلا رہی ہے۔

قانونی قرار دینے کے حق میں دلائل

اگرچہ جنوبی افریقہ میں سیکس کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے، لیکن سویٹ کی 2013 کی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سیکس ورکرز ہیں۔

سویٹ کی نمائندہ میگن لیسنگ کے مطابق 2013 کے تخمینے کے مطابق 90 فیصد سیکس ورکر‍ز خواتین تھیں۔

تاہم لیسنگ کا ماننا ہے کہ آج یہ شرح تقریباً 80 فیصد کے قریب ہے۔

سیکس ورک کو قانونی قرار دینے کے حامی کونی جیسی خواتین کی مثال دیتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ''سیکس ورک بھی ایک طرح کا کام ہے" ۔ یہ صنعت بذاتِ خود خطرناک نہیں، بلکہ اصل خطرہ اس کے غیر قانونی ہونے اور سماجی بدنامی سے ہے۔

سن دو ہزار اکیس میں جنوبی افریقی سائنسدانوں نے بتایا کہ ملک میں تقریباً 70 فیصد سیکس ورکر جسمانی تشدد کا شکار ہوئے اور تقریباً 60 فیصد کے ساتھ زیادتی کی گئی، جن میں سے ہر سات میں سے ایک واقعہ پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہوا۔

اسی تحقیق میں یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ پرتشدد جرائم شاذونادر ہی رپورٹ کیے جاتے ہیں، کیونکہ متاثرین کو گرفتاری، ہراسانی یا اس سے بھی بدتر انجام کا خوف ہوتا ہے۔

سیکس ورکرز کے خلاف سماجی بدنامی کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ ایچ آئی وی سے غیر متناسب حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ اگرچہ جنوبی افریقہ نے اس وائرس کے خلاف جنگ میں نمایاں پیش رفت کی ہے، لیکن یو این ایڈس کے مطابق آج بھی دنیا کی سب سے بڑی ایچ آئی وی وبا اسی ملک میں ہے۔

قانونی قرار دینے کے خلاف دلائل

جنوبی افریقہ میں قانونی قرار دینے کے مخالفین میں سے ایک غیر سرکاری تنظیم کاز فار جسٹس (سی ایف جے) کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ "بنیادی انسانی وقار" کا ہے۔

سی ایف جے کے مطابق ''فحاشی انسانی جسم کو ایک تجارتی شے بنا دیتی ہے، اور لوگوں کو محض ایسے جنسی اجسام میں بدل دیتی ہے جو شکاری ذہن رکھنے والے افراد کی تسکین کے لیے استعمال ہوں۔

‘‘

ان کا ماننا ہے کہ سیکس ورک کو قانونی بنانے کے بجائے اس پر پابندی برقرار رہنی چاہیے کیونکہ یہ خواتین کی تذلیل ہے، انسانی اسمگلنگ کو فروغ دیتا ہے، بچوں کی جسم فروشی تک لے جاتا ہے، جنسی بیماریوں کے پھیلاؤ کے خطرات کو بہت زیادہ بڑھاتا ہے اور عوامی بدامنی کا باعث بنتا ہے۔

لیکن اس کے جواب میں قانونی حیثیت کے حامی کہتے ہیں کہ یہ جسمانی خودمختاری کا معاملہ ہے۔

کٹھن قانونی جدوجہد

جنوبی افریقہ میں سیکس ورک کو قانونی حیثیت دینے کی جدوجہد ایک نہایت نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

2022 میں، وزارتِ انصاف نے ڈی کرمنلائزیشن بل شائع کیا تھا، جو ایسے قوانین کو ختم کر دیتا جو سیکس ورک کو جرم قرار دیتے ہیں۔

لیکن اس کے بعد سے پیش رفت رک گئی۔ یہ بل پارلیمانی عمل میں پھنسا ہوا ہے کیونکہ اس میں نئی ترامیم تجویز کی گئی ہیں، ناقدین کی مخالفت سامنے آئی ہے اور حکومتی قیادت میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

میگن لیسنگ کا کہنا ہے کہ ''اب نہ تو فوری اقدام باقی رہا ہے اور نہ ہی سیاسی عزم۔‘‘

سویٹ اگرچہ بل کی منظوری کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، لیکن اب وہ ایک "دوہری حکمت عملی" پر عمل پیرا ہیں، جس کے تحت وہ ان قوانین کو آئین سے متصادم قرار دینے کے لیے بھی عدالت سے رجوع کر رہے ہیں جو جنسی کارکنوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

سویٹ کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ سیکس ورک کو جرم قرار دینا غیر آئینی ہے کیونکہ یہ آزادی اور تحفظ کے حق، انصاف تک رسائی کے حق، منصفانہ مزدوری کے حق اور صحت کی دیکھ بھال کے حق کے خلاف ہے۔

اگست 2025 میں سویٹ کو ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی جب سیکس ورکر‍ز کے خلاف مقدمات چلانے پر قومی سطح پر پابندی عائد کروا دی، جو ٹرائل شروع ہونے تک نافذ رہے گی۔

مستقبل کی طرف نگاہ

اس حوالے سے بنیادی مقدمہ سماعت کے لیے مئی 2026 میں مقرر ہے۔ کونی کو امید ہے کہ عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے گی، جس سے سیکس ورکرز کو وہی بنیادی حقوق اور سہولیات حاصل ہو سکیں گی جو باقی سب کو دستیاب ہیں۔

سویٹ کی نمائندہ میگن لیسنگ کا کہنا ہے ہم جانتے ہیں کہ ڈی کرمنلائزیشن ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، لیکن یہ سیکس ورک سے متعلق مسائل کے وسیع دائرے کو حل کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے۔

اگر ڈی کرمنلائزیشن کے حامی کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ کمرشیل سیکس انڈسٹری میں ایک اہم تبدیلی کی علامت ہو سکتی ہے اور جنوبی افریقہ بھر میں سیکس ورکر‍ز کی حفاظت اور فلاح و بہبود میں نمایاں بہتری لا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ جنوبی افریقہ واحد ملک نہیں ہے جو سیکس ورک کے لیے مناسب قوانین بنانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے مختلف ماڈل موجود ہیں اور ہر ایک پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ جرمنی، نیدرلینڈز، پیرو اور سینیگال جیسے ممالک میں سیکس ورک کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔ قانونی حیثیت دینے کا مطلب ہے کہ حکومت مخصوص قوانین اور ضوابط لاگو کرتی ہے۔

ادارت: کشور مصطفیٰ