بنچ پر تحفظات،سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کولکھے گئے خط پر بیرسٹرعلی ظفرسے کل تک وضاحت مانگ لی ،بحریہ ٹاؤن کے کسی ڈائریکٹر یاکسی اورافسرنے خدشہ ظاہر کیاہے تواس بارے عدالت کوآگاہ کیاجائے،سپریم کورٹ

بدھ 1 اپریل 2015 09:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔1اپریل۔2015ء )سپریم کورٹ آف پاکستان نے بنچ پر تحفظات بارے لکھے بارے چیف جسٹس پاکستان کولکھے گئے خط پر بیرسٹرعلی ظفرسے کل جمعرات تک وضاحت مانگ لی ہے عدالت نے کہاہے کہ بحریہ ٹاؤن ایک کارپوریشن ہے جسے ازخود کوئی تحفظات نہیں ہوسکتے اگرکسی ڈائریکٹر یاکسی اورافسرنے خدشہ ظاہر کیاہے تواس بارے عدالت کوآگاہ کیاجائے یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منگل کوبحریہ ٹاؤن اورمحکمہ جنگلات کے درمیان اراضی تنازعے بارے کیس کی سماعت کی اس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ہم نے جب بحریہ ٹاؤن کے دیگر مقدمات میں ریلیف علی ظفر کودیاتھاتواس وقت توانھوں نے کوئی خدشہ ظاہر نہیں کیاتھاآج کیوں ایساکیاجارہاہے جس پر بیرسٹر اعتزازاحسن نے کہاکہ وکیل کوآنے دیں وہ اس وقت موجود نہیں ہیں ان کوسن کرہی کوئی فیصلہ کیاجائے جس پر عدالت نے حکم نامہ تحریر کرایااور علی ظفر کے خط کے مندرجات کوبھی آرڈر کاحصہ بنایاجس میں علی ظفر نے کہاتھاکہ جسٹس جواد ایس خواجہ ان کی درخواست کوخارج کرسکتے ہیں کیو نکہ وہ پہلے ہی اس بارے ذہن بناچکے ہیں عدالت نے کیس کی مزیدسماعت دواپریل تک ملتوی کردی واضح رہے کہ علی ظفر ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس پاکستان کوخط تحریر کیاتھاجس میں انھون نے کہاتھاکہ انہیں جسٹس جواد ایس خواجہ سے انصاف کی توقع نہیں اس لئے مقدمہ کو کسی اور بینچ میں منتقل کیا جائے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے درخواست بحریہ ٹاؤن بنام محکمہ جنگلات پنجاب اراضی تنازعہ کیس میں دائر کی ہے ۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ سے انصاف کی توقع نہیں اس لئے اس مقدمہ کو کسی اور بینچ میں منتقل کیاجائے ۔ ویسے بھی سپریم کورٹ ملک ریاض بنام ڈاکٹر ارسلان افتخار (سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے )کے مقدمہ میں قرار دے چکی ہے کہ شفاف ٹرائل ہر فرد کا بنیادی حق ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔

اس لئے اس مقدمہ میں بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کیاجائے ۔ بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے چیف جسٹس کو بھجوائی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور محکمہ جنگلات پنجاب کے درمیان اراضی تنازعہ اس وقت ماتحت عدلیہ میں زیر سماعت ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کے حوالے سے درخواست دی تھی کہ اس کی سماعت کو ملتوی کیا جائے اور یکم اپریل کے بعد کسی ہفتے میں سماعت کیلئے مقرر کیا جائے اور آپ نے بطور چیف جسٹس پاکستان ان کی جانب سے التواء کی درخواست منظور کی تھی اور اس مقدمہ کو التواء میں رکھنے کا حکم جاری کیا تاہم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں بینچ نے پچیس مارچ 2015ء کو نہ صرف مقدمے کی سماعت کی بلکہ وکیل کی جانب سے 24 مارچ تا یکم اپریل تک التواء کی درخواست بھی قبول نہیں کی حالانکہ یہ التواء بھی آپ نے ( چیف جسٹس آف پاکستان ) دیا تھا مذکورہ مقدمہ میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے بہت سی آبزرویشن بھی دیں بلکہ ایک عبوری ریلیف بھی دے دیا جو ان کے موکل بحریہ ٹاؤن کو عدالتوں سے حتمی فیصلے میں نقصان کا باعث بن سکتا ہے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان سے التواء کی منظوری کے باوجود مذکورہ مقدمہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے بینچ میں آج منگل کو سماعت کیلئے مقرر کردیا ہے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس مقدمہ کو ڈی لسٹ کیا جائے اور کسی اور بینچ میں مقرر کیا جائے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی ہدایات پر محکمہ جنگلات پنجاب نے اراضی کی واپسی کیلئے کارروائی شروع کررکھی ہے اور وہ پرائیویٹ گھروں میں جا کر اراضی لے رہے ہیں ۔

درخواست میں مزید موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ جسٹس جواد ایس خواجہ پہلے ہی اس مقدمے میں محکمہ جنگلات پنجاب کو کارروائی کی ہدایات جاری کرچکے ہیں ایسی صورت میں وہ اپنا فیصلہ اپس نہیں لینگے اس لئے ان سے اب انصاف کی توقع نہیں وہ ویسے بھی فیصلہ دے چکے ہیں ان کے حکم پر عمل ہوکر رہے گا لہذا اس مقدمے کو کسی اور بینچ میں مقرر فرمایا جائے اور پہلے ان کی معروضات کو سن لیا جائے اور پھر کوئی فیصلہ کیاجائے ویسے بھی وہ ملک سے باہرہیں اور انہیں واپس آنے دیں عدالت یہ مقدمہ کی کارروائی ان کو سنے بغیر آگے نہیں بڑھا سکتی ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پی ایل ڈی 2012 ایس سی 664ملک ریاض بنام ڈاکٹر ارسلان افتخار تنازعہ میں یہ قرار دے چکے ہیں کہ شفاف ٹرائل ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور اس بنیاد پر ڈاکٹر ارسلان افتخار کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی تھی ۔آرٹیکل دس اے کے تحت سول حق اورفرائض کوواضح کرتے ہوئے اس کی باقاعدہ گارنٹی بھی دی گئی ہے کہ اس پر عمل کیاجائیگاکہ ہر شخص کوشفاف ٹرائل کاپوراموقع دیاجائیگا۔

چیف جسٹس آف پاکستان اس مقدمے میں پہلے ہی التواء کی درخواست منظور کرچکے ہیں جس کی پابندی کرنا سپریم کورٹ کے تمام ججز بینچز کیلئے ضروری ہے جب ایک بار کسی مقدمے میں التواء کی درخواست منظور کرلی جائے تو یہ طے شدہ عدالتی عمل ہے کہ اس طرح کے مقدمے کو بغیر کسی سماعت کے ملتوی کیاجائے گا اور یہ بھی قانون ہے کہ اگر کوئی وکیل نے التواء لے رکھا ہو تو اس دوران مذکورہ مقدمہ میں مذکورہ تاریخ پر نہ تو کوئی عبوری ریلیف کسی کو دیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اس بارے کوئی آبزرویشن دی جاسکتی ہے اس سے انصاف سے مکمل محرومی ہوسکتی ہے او رکسی کو اس کا دفاع کا موقع نہ دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔

انصاف اس طرح کیاجانا چاہیے کہ وہ ہوتا ہوا نظر آئے ۔ درخواست کے اختتام پر فاضل وکیل نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ بطور وکیل ان سے انصاف نہیں کیا گیا اور آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے اس لئے آپ سے استدعا ہے کہ آج منگل کو مقرر کئے گئے مقدمے کی سماعت ڈی لسٹ کرتے ہوئے اس کو یکم اپریل کے بعد کسی تاریخ پر مقرر فرمائے اور اس مقدمے کو اس بینچ میں لگایا جائے جس کا حصہ جسٹس جواد ایس خواجہ نہ ہوں ۔ فاضل وکیل نے واضح کیا کہ 24 مارچ تا یکم اپریل 2015 تک مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی گئی تھی جو چیف جسٹس نے باقاعدہ منظور کی تھی