Aik Plate - Article No. 1511

Aik Plate

ایک پلیٹ - تحریر نمبر 1511

حماد ایک مرتبہ پھر امتحانات میں حسب توقع رزلٹ حاصل نہ کر سکا تھا اور نتیجتاً بھوک ہڑتال کرکے بیٹھا تھا۔

پیر 2 ستمبر 2019

مریم جہانگیر
حماد ایک مرتبہ پھر امتحانات میں حسب توقع رزلٹ حاصل نہ کر سکا تھا اور نتیجتاً بھوک ہڑتال کرکے بیٹھا تھا۔امی کچن میں بریانی بنا رہی تھیں جو کہ حماد کو بہت پسند تھی اور اس کو بنانے کا مقصد اُس کے بگڑے ہوئے مزاج کو سنوارنا ہی تھا۔حماد نہایت لائق ،محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔وہ آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔
اُس کے اساتذہ بھی اُس کی قابلیت کی تعریف کرنے سے نہ چونکتے تھے۔مگر پچھلے دوسہ ماہی امتحانات سے وہ اچھے نمبر لینے میں کامیاب نہیں ہورہا تھا۔نمبر تو اُس کے اچھے ہوتے ،مگر وہ اول نہ آتا۔حالانکہ وہ ساتویں جماعت تک اول پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا اور تو اور ساتویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں اُس نے اسکول کا پرانا ریکارڈ توڑ دیا تھا اور اتنے اچھے نمبروں کے سبب اسکول کا ”بیسٹ اینڈ آؤٹ سٹینڈنگ “طالب علم بنا تھا۔

(جاری ہے)

مگر جانے کیوں آٹھویں جماعت میں آتے ہی وہ اپنی پرانی پوزیشن بر قرار نہ رکھ سکا تھا۔ویسے ایک سچ یہ بھی ہے کہ کوئی مقام حاصل کر لینا آسان ہے مگر اس کو قائم رکھنا بہت مشکل ۔لہٰذا محنت کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے تاکہ کوئی بھی مقام ہاتھ میں آنے کے بعد صرف آپ ہی کی شخصیت کا طرئہ امتیاز بنا رہے۔
دادا جان ظہر کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوئے تو بریانی کی خوشبو کے سبب کچن میں ہی آگئے اور حماد کی امی سے کہنے لگے۔

”ارے بہو!لگتا ہے آج حماد نے میدان مار ہی لیا۔تب ہی تم اس خوشی کو دوبالا کرنے کیلئے بریانی بنا رہی ہو۔“
”نہیں ابو جان!دراصل اس مرتبہ پھر 92فیصد نمبر لینے کے باوجود اول پوزیشن حاصل نہیں کر سکا۔لہٰذا خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے“حمادکی امی نے تفصیل سے اُس کے دادا جان کو بتایا۔
دادا جان نے حماد کے بارے میں سن کر پُر سوچ انداز میں حماد کو اپنے کمرے میں بلایا۔

”جی دادا جان“حماد نے اُن کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں بر خور دار!کیا ہورہا ہے؟آج تمہارا رزلت تھانا ،کیا بنا؟“دادا جان نے حماد سے پوچھا۔
”92فیصد نمبر آئے ہیں ،لیکن دوم پوزیشن حاصل کر سکا ہو“حماد نے لٹکے ہوئے منہ سے آہستگی سے
جو اب دیا۔
”کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ پچھلی دوسہہ ماہی سے تم اول پوزیشن حاصل کیوں نہیں کررہے ہو۔
حالانکہ تم ساتویں جماعت تک بہتر نہیں بہترین طالب علم تھے۔کیا تم نے برے دوستوں کی صحبت اختیار کرلی ہے یا پھر یکسوئی سے پڑھنے میں کامیابی پوشیدہ ہے کہ اصول سے انحراف کرنا شروع کر دیا ہے ؟دادا جان نے دلار سے حماد سے پوچھا۔
#”نہیں دادا جان ،بات یہ نہیں ۔دراصل آٹھویں جماعت کے شروع میں ہی ہمارے اسکول میں نئے طالب علموں کا داخلہ شروع ہو گیا تھا۔
ہماری کلاس میں بھی چند نئے لڑکے داخل ہوئے ہیں ۔زوہیب بھی انہی میں سے ایک ہے ۔اُس نے پہلے دن سے ہی اساتذہ کی نظروں میں اہمیت حاصل کرنا شروع کر دی ہے اور تمام اساتذہ بھی شاید اسے مجھ سے زیادہ قابل سمجھتے ہیں۔وہ ہر بات پر اُسے مجھ پر فوقیت دیتے ہیں۔اسی سبب میں پچھلے دو امتحانات میں اول پوزیشن حاصل نہیں کر سکا ہوں۔ایسا نہیں کہ میں محنت نہیں کرتا۔
میں محنت بھی کرتا ہوں ۔بالکل اسی طرح جس طرح پہلے کیا کرتا تھا۔ اور رہی بات برے دوستوں کی صحبت کی ،تو داداجی آپ مجھے جانتے ہی ہیں،میں جانتا ہوں کہ دوست شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں ۔تو میں کیوں کر برے لڑکوں سے رسم وراہ بڑھا سکتا ہوں۔مگر میری اس احتیاط اور محنت کے باوجود میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں ناکام ہورہا ہوں“حماد نے دادا جان کو تفصیلاً مطلع کرتے ہوئے سر کو جھکا لیا۔

اچھا تو یہ بات ہے۔میں تو سمجھانہ جانے کیامسئلہ ہوا ہے کہ میرا چہیتا کامیاب شاہین آج کل ڈانواں ڈول ہورہا ہے۔بیٹا دیکھو!پچھلے سات سال سے آپ اس اسکول میں پڑھ رہے ہو اور مسلسل اول پوزیشن حاصل کررہے ہو۔مگر زوہیب کے آنے بعد سے تمہیں مشکلات کا سامنا ہے تو میرے بچے یہ بات ذہن میں رکھو کہ اگر اُس نے آتے ہی اساتذہ کی نظر میں اہمیت حاصل کرلی ہے تو ضرور اس میں کچھ صلاحیتیں ہوں گی تب ہی تو وہ اس قدر اہمیت کا حصول اپنے لیے ممکن کر پایا ہے ۔
دیکھو،تم پہلے بھی محنت کرتے تھے اور میرے بچے یقیناابھی بھی محنت کرتے ہو گے ،لیکن اب تمہیں زیادہ محنت کرنی چاہیے۔کیوں کہ پہلے کوئی تمہارے مقابلے میں نہیں تھا۔اب زوہیب ایک ذہین اور قابل طالب علم کی صورت میں تمہارے مد مقابل ہے ۔تمہیں اس سے حسد نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اُس کی صلاحیتوں کا ادراک کرکے خود کو احساس کمتری کا شکاربننا چاہیے ۔
اورنہ ہی گھبرانا چاہیے ۔بلکہ اس کے مقابل اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔اگر پہلے تم پڑھائی کو دو گھنٹے دیتے تھے تو اب کم از کم چار گھنٹے دو۔زوہیب کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اُس کے اچھے کام کی پیروی کرو۔ناممکن چیز دنیا میں کوئی نہیں۔ہر درد کی دعا ہے۔ہر غم کا علاج ہے اور ہر مسئلے کی طرح اس مسئلے کا بھی حل یہی ہے کہ محنت کر و۔
دل چھوڑ کر مت بیٹھو۔قوت ارادی اور قوت فیصلہ مضبوط رکھو۔امید ہے تم میری باتوں کے سبب کسی الجھن میں مبتلا نہ ہوئے ہو گے،بلکہ شاید کچھ سمجھ ہی پائے ہو گے کہ محنت میں ہی عظمت ہے۔“دادا جان نے سر جھکائے حماد کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”جی دادا جان!میں سمجھ گیا۔آپ جو کہنا چاہتے ہیں ،میں سمجھ گیا کہ کامیابی محنت میں مضمر ہے۔میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے راستہ دکھایا۔
یقین کریں آپ کی باتیں میری دماغ کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر امید کی وادیوں میں لے آئی ہیں۔میں آئندہ مایوسی جیساگناہ نہیں کروں گا۔”حماد نے نئے عزم اورحوصلے سے کہا۔
چار ماہ بعد پھر حماد کے گھرمیں بریانی بنی تھی،مگر اس بار حماد نے 98فیصد نمبر حاصل کیے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اول پوزیشن بھی ۔اس کی کلاس میں اُس کے ساتھ ساتھ زوہیب نے بھی اول پوزیشن حاصل کی تھی۔آج بنائی گئی بریانی حماد کو خوش کرنے کے لیے نہیں تھی ،بلکہ اُس کی خوشی کو دوبالاکرنے کے لیے تھی۔تب ہی تو حماد چلا رہا تھا”امی ایک پلیٹ بریانی اور پلیز ۔“

Browse More Moral Stories