Cheel Aur Kabootar - Article No. 2206

چیل اور کبوتر - تحریر نمبر 2206
ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا
پیر 7 مارچ 2022
چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک،پھرتیلے اور تیز اُڑان ہیں کوئی اور چال چلنی چاہیے۔کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔
چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔وہ کبوتروں کے پاس گئی۔کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:
”بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔
(جاری ہے)
تم بھی آسمان پر اُڑ سکتے ہو۔میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔
میں طاقتور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں،تم نہیں کر سکتے۔میں بلی پر حملہ کرکے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔تم یہ نہیں کر سکتے۔تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں،تاکہ تم ہنسی خوشی،آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور تمہاری اس آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔میں تمہارے لئے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔کبوتر بھائیو!اور کبوتر بہنو!میں ظلم کے خلاف ہوں۔انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔میں چاہتی ہوں کہ تم سب ہر خوف سے آزاد رہ کر اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔
میں چاہتی ہوں کہ تمہارے اور میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے،لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔
چیل نے کہا کہ جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمے داری ہو گی۔تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہو گی۔
چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے کبوتروں کے سامنے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔
ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کرکے چیل کو اپنا بادشاہ مان لیا۔اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔چیل نے سب کبوتروں کی آزادی،حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔
جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔بچو!پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔
اس واقعے سے چیل پر کبوتروں کا بھروسہ مزید بڑھ گیا۔چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔کبوتر اب بغیر ڈرے چیل کے پاس چلے جاتے۔وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔
ایک دن صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ انداز میں بولی:
”بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری حکمران ہوں۔تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں،بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔اُس دن اگر اُس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔“
یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔
اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ان کی آزادی ختم ہو گئی۔وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے:”ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟اب کیا ہو سکتا ہے؟
Browse More Moral Stories

نافرمان چُن مُن
Nafarman Chun Mun

حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں
Hisaab Jun Ka Tun Kunba Duba Kyun

سیاہ پھول
Siyah Phool

امی کہتی ہے
Ammi Kehti Hai

واپسی
Wapsi

الفاظ کا مرہم
ALffaz Ka MArham
Urdu Jokes
میں بھی آرام سے ہوں
mein bhi Aaram se hon
فلسفی
falsafi
ایک صاحب
Aik Sahib
مولی
Moli
بھیک
bheek
ایک ماہر
Aik Mahir
Urdu Paheliyan
اک ڈنڈے کے ساتھ اک انڈا
ek dandy ke sath ek danda
ایک خزانہ پانے والا
ek khazana pane wala
اک حد تک تو گرمی کھائے
ek hud tak tu garmi khaye
اک بڈھے کے سر پر آگ
ek budhe ke sar par aag
ہو گر ایک تو ہے بے کار
ho agar aik tu hai bekar
دیکھ کر اس کا کمال اس کا ہنر
dekh kar uska kamal uska hunar