Azaadi Aik Anmool Naimat - Article No. 1486

Azaadi Aik Anmool Naimat

آزادی ایک انمول نعمت - تحریر نمبر 1486

بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ملک ایران میں ایک سوداگر رہتا تھا جس کے پاس ایک بہت ہی خوبصورت طوطا تھا۔سوداگر یہ طوطا ہندوستان کے جنگل سے پکڑ کر لایا تھا۔

منگل 30 جولائی 2019

بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ملک ایران میں ایک سوداگر رہتا تھا جس کے پاس ایک بہت ہی خوبصورت طوطا تھا۔سوداگر یہ طوطا ہندوستان کے جنگل سے پکڑ کر لایا تھا۔
طوطا بہت پیاری پیاری باتیں کرتا تھا اور سودا گر کوبہت عزیز تھا۔ایک مرتبہ سودا گر کو تجارت کے سلسلے میں ہندوستان جانا پڑا۔سفر پر جانے سے قبل وہ پنجرے کے پاس گیا اور طوطے سے کہنے لگا پیارے طوطے! میں تمہارے وطن ہندوستان جارہاہوں،وہاں میراگزراسی جنگل سے ہو گا جہاں تمہارے ساتھی رہتے ہیں اگر تم انہیں کوئی پیغام دینا چاہتے ہوتو بتادو۔

طوطے نے جواب دیا کہ مالک!آپ میرے دوستوں کو صرف اتنا کہہ دو کہ وہ تو بڑے مزے سے وطن کے جنگل میں رہتے ہیں آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں مگر میں بدنصیب وطن سے دور اس پنجرے میں بند ان سے ملنے کیلئے تڑپ رہا ہوں۔

(جاری ہے)


جب سوداگر ہندوستان پہنچا تو اپنے قافلے کے ہمراہ اس کا گزر اسی جنگل سے ہوا جہاں طوطے کے دوست رہتے تھے۔وہاں بہت سے خوبصورت طوطے درختوں پر بیٹھے تھے انہیں دیکھ کر سوداگر کو اپنے طوطے کا پیغام یاد آگیا اور اس نے بلند آواز میں انہیں وہ پیغام سنا دیا۔


جیسے ہی سوداگرنے اپنی بات ختم کی تو ایک طوطے کی حالت خراب ہو گئی وہ بری طرح تھر تھرانے لگا اور درخت کی شاخ سے گرکردم توڑدیا۔
یہ دیکھ کر سوداگر کو بہت افسوس ہوا،اس نے سوچا کہ شاید یہ میرے طوطے کا قریبی رشتہ دار تھاجو اس کا درد ناک پیغام سنتے ہی چل بسا۔
جب سوداگر اپنے وطن پہنچا تو اس نے اپنے طوطے کو اس کے رشتہ دار کی موت کا حال بیان کیا۔

سوداگر کی بات سنتے ہی طوطے نے جھر جھری لی اور پنجر ے کے فرش پر گرکر تڑپنے لگا تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھیں پتھر اگئیں اور جسم بے جان ہو گیا۔اپنے پیارے طوطے کی موت پر سوداگر بہت غم زدہ ہوا اور اس نے خوب آنسو بہائے پھر اس نے پنجرہ کھول کر طوطے کو باہر نکال کر پھینک دیا۔جیسے ہی سوداگر نے طوطے کو پھینکا طوطے نے پر پھڑ پھڑائے اور قریبی درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔
یہ دیکھ کر سوداگر بہت حیران ہوا اور طوطے سے کہنے لگا کہ اے بے وفاطوطے!میں تجھے اتنا عزیز رکھتا تھامگر تو نے مجھے خوب دھو کہ دیا۔
طوطا یہ سن کر بولا تم مجھے اس لئے عزیز رکھتے تھے کیونکہ میں اچھی اچھی باتیں کرکے تمھاراجی بہلاتا تھا،مگر اے بیوقوف انسان!تم نے خود مجھے وہ ترکیب بتائی جو میرے دوست نے کہلابھیجی تھی،میں نے اس پر عمل کیا اور اس کی طرح مردہ بن گیا تو تم نے خود مجھے اپنے ہاتھوں سے آزاد کردیا اب تم خود بتاؤکہ جب سب کچھ تم نے اپنے ہاتھوں سے کیا ہے تو پھر مجھے براکیوں کہتے ہو۔

یہ کہتے ہوئے طوطے نے اپنے مالک کو الودع کہا اور گنگنا تا ہوا اپنے وطن روانہ ہو گیا۔
پیارے بچوں آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ پاک کا خاص فضل وکرم ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھیں۔

Browse More Moral Stories