Dost Ho Tu Aaisa - Article No. 1916

Dost Ho Tu Aaisa

دوست ہو تو ایسا - تحریر نمبر 1916

بہت دور ایک پہاڑی علاقے میں ایک گاؤں آباد تھا ۔ اس میں دو دوست رہتے تھے ۔ ایک کا نام مان اور دوسرے کا فان تھا

جاوید بسام بدھ 10 مارچ 2021

بہت دور ایک پہاڑی علاقے میں ایک گاؤں آباد تھا ۔ اس میں دو دوست رہتے تھے ۔ ایک کا نام مان اور دوسرے کا فان تھا ۔ مان پہاڑ کی چوٹی پر جبکہ فان پہاڑ کے دامن میں رہتا تھا ۔ وہ بچپن کے دوست تھے ، مگر ان کی عادتوں میں بہت فرق تھا ۔ مان انتہائی سنجیدہ اور تنہائی پسند آدمی تھا ۔ وہ اکیلا رہتا تھا اور لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا تھا ۔ وہ کبھی کسی کے گھر نہ جاتا , نہ دوسروں کو اپنے گھر بلاتا ۔

شام کو گاؤں کے مرد اپنے کاموں سے فارغ ہوکر چائے خانے پر جمع ہوجاتے اور دنیا جہاں کی باتیں کرتے ۔ مگر مان کبھی وہاں کا رخ نہ کرتا ۔ بس وہ بے دلی سے اپنے کھیت میں کام کررہا ہوتا یا لوگوں سے نظریں چرائے راستے پر آتا جاتا نظر آتا ۔ اس کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے اداس آدمی ہے ۔

(جاری ہے)


اس کے برعکس دوسرا دوست فان جو پہاڑ کے دامن میں رہتا تھا ۔

ایک ہنس مکھ آدمی تھا ۔ وہ ہمیشہ خوش باش نظر آتا ۔ لوگوں سے میل جول رکھتا ۔ ان کی تقریبات میں شریک ہوتا اور انھیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتا ۔ اس نے جب دیکھا کہ مان دن بدن رنجیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا بالکل بند کر دیا ہے تو وہ فکرمند ہو گیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی ترکیب سوچنے لگا ۔ کئی دن تک سوچ بچار کے بعد آخر اسے ایک ترکیب سوجھ گئی ۔

آغاز بہار کے ایک دن جب خوشگوار ہوا چلی رہی تھی ۔ وہ پھلوں کی ٹوکری کندھے پر رکھے مان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔ مان نے دروازہ کھول کر حیرت سے اسے دیکھا ۔ فان نے اسے سلام کیا اور ٹوکری اس کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے بولا ۔ " تم تو ملنے آتے نہیں , میں نے سوچا میں خود ہی مل آؤں ۔ لو یہ میرے باغ کے پھل ہیں ۔ "
مان نے اسے اندر بلا لیا ۔
دونوں بیٹھ گئے ۔ فان اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا ، لیکن مان بہت کم بول رہا تھا۔
آخر فان نے پوچھا۔ " کیا تم بیمار ہو ؟"
" نہیں ۔" اس نے اداسی سے کہا ۔
" پھر تم نے ایسا رنجیدہ منہ کیوں بنا رکھا ہے ؟ چلو بازار کا چکر لگا کر آتے ہیں ، سنا ہے سردیوں کے لیے خان بابا کے پاس اچھا کپڑا آیا ہے ۔ "
مان کشاں کشاں اس کے ساتھ چل دیا ۔
فان نے اپنے لیے کپڑوں کا ایک جوڑا خریدا اور دوسرا مان کو بھی تحفتاً دلا دیا ۔ مان منع کرتا رہا مگر فان نہ مانا ۔ پھر دونوں رخصت ہوکر اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔
چند دن بعد فان پھر جال ہاتھ میں پکڑے جھاڑیوں کو ڈنڈے سے ہلاتا ، ادھر ادھر نظریں گھماتا اس کے گھر کی طرف آنکلا اور زور سے دروازہ بجاتے ہوئے آواز لگائی ۔ " مان ! ۔۔۔۔ مان باہر آؤ ! ۔
۔۔۔ میں نے آج ایک عجیب و غریب پرندہ دیکھا ہے ۔ اس کے پر نیلے جسم سبز اور آنکھیں لال تھیں ۔ وہ اسی طرف اڑ کر آیا ۔ آؤ ! اسے تلاش کرتے ہیں ۔ "
مان لمبی تانے سو رہا تھا ۔ وہ سمجھا گاؤں پر کوئی آفت نازل ہو گئی ہے ۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور پاؤں میں چپل پہنے بغیر گھر سے دوڑتا ہوا باہر نکلا ۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر فان نے قہقہہ لگایا ۔ اسے ہنستے دیکھ کر مان ناراض ہو کر واپس جانے لگا ، لیکن فان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے چل دیا۔
" اوہ یار ، بلا وجہ دن میں سونا جوان آدمی کو زیب نہیں دیتا ۔ "
دونوں قریبی جنگل میں چلے گئے اور وہاں دیر تک گھومتے رہے ۔ وہ پرندہ ڈھونڈتے ہوئے باتیں بھی کر رہے تھے ۔ مان کا موڈ ٹھیک ہو گیا تھا ۔ پھر تھک کر فان بولا۔ " جانے وہ پرندہ کہاں گیا ۔ چلو چھوڑو ۔ آؤ ! کچھ کھا پی لیں ۔ "
اس نے اپنے تھیلے میں سے بیسنی روٹی اور اچار نکالا اور بولا ۔
" آجاؤ دونوں چیزیں بہت مزے دار ہیں ۔ تمہاری بھابھی نے بنائی ہیں ، مزہ آ جائے گا ۔ "
" ایسا لگتا ہے تم گھر سے تیاری کر کے چلے تھے ؟ " مان بولا ۔
" ہاں ، میں ہر کام منصوبہ بندی سے کرتا ہوں ۔ " فان بولا ۔
دونوں گھاس پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگے ۔ وہ باتیں بھی کر رہے تھے ۔ فان نے کہا ۔ " تمھیں شادی کرلینی چاہیے ۔ "
" میں یوں ہی ٹھیک ہوں ۔
" مان بولا ۔
" مجھے تو نہیں لگتا کہ تم خوش ہو ۔ " فان بولا ۔
مان اس سے دوسری باتیں کرنے لگا ۔ فان سمجھ گیا کہ مان ابھی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا ۔ اس نے دوبارہ وہ بات نہ کی ۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔
پھر ایک دن اسی طرح فان ہاتھوں میں بڑا سا ڈبہ اٹھائے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے مان کے دروازے پر آواز لگا رہا تھا ۔
" مان مان !! دروازہ کھولو ۔ کیا تم اپنے سب گھوڑے گدھے بیچ کر سوئے ہو ؟ "
مان نے دروازہ کھولا تو وہ چلایا۔ " دوست ! مجھے مبارکباد دو ۔ آج میری سالگرہ ہے ۔ مجھے اس دنیا میں آئے پچیس برس گزر گئے ہیں ۔ " مان بہت مشکل سے مسکرایا اور اسے مبارک باد دی ۔ دونوں اندر آبیٹھے ۔
فان ہاتھ ملتے ہوئے بولا ۔ " میں آج بہت خوش ہوں ۔ آج کے مبارک دن میں اس دنیا میں آیا تھا ۔
"
مان نے گردن ہلائی پھر کچھ سوچ کر بولا ۔ " مگر ابھی دو تین مہینے پہلے تو تمہاری سالگرہ تھی ؟ "
" وہ میری نہیں میری شادی کی سالگرہ تھی ۔ اچھا چُھری لاؤ ۔ میں کیک کاٹوں اور ہاں کنجوسی نہیں چلے گی ۔ تمھیں مجھے کوئی نہ کوئی تحفہ بھی دینا ہوگا ، چاہے وہ مرغی کا سر ہی کیوں نہ ہو ۔ "
مان نے زوردار قہقہہ لگایا ۔ پھر وہ چھری لایا ۔
فان نے کیک کاٹا اور وہ مزے سے کیک کھانے لگے ۔ ساتھ ہی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ بھی کررہے تھے ۔
فان بولا ۔ " تمھیں یاد ہے ؟ بچپن میں ہم اخروٹ توڑنے جنگل میں جایا کرتے تھے اور ایک دفعہ ہمیں وہاں چڑیل نظر آئی تھی ۔"
" ہاں اچھی طرح یاد ہے ۔ ہم اس سے ڈر کر بھاگے تھے ۔ تم گر گئے تھے اور سر پر چوٹ لگی تھی ۔ کئی دن تک تمھیں آرام کرنا پڑا تھا ۔
اس دوران وہ چڑیل اور بھی کئی لوگوں کو نظر آتی رہی ۔ آخر سب نے وہاں جانا چھوڑ دیا , مگر بعد میں پتا چلا تھا کہ وہ ایک بے گھر عورت تھی ۔ اس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا ۔ " مان بولا ۔
فان نے گردن ہلائی اور بولا ۔ " واہ ! تمھاری یاداشت بہت اچھی ہے ۔ مجھے حیرت ہے ۔ جب تم لوگوں سے ملتے ہو تو ان سے باتیں کیوں نہیں کرتے ؟ "
" بس ، مجھے زیادہ باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا ۔
" مان شرما کر بولا ۔
" ہاں , کم بولنا اچھی بات ہے , لیکن دلچسپ اور اچھی باتیں سب شوق سے سنتے ہیں ۔ " فان بولا ۔
مان سر ہلانے لگا ۔ غرض وہ دیر تک خوش گپّیاں کرتے رہے ۔ پھر فان وہاں سے رخصت ہوگیا ۔
پھر فان نے حکمت عملی بدلی اب وہ خود نہیں جاتا تھا بلکہ مان کو بلا لیتا ۔ ایک دن اس نے اپنے گھر کے آگے سے گزرتے پھیری والے سے جو پہاڑ کی چوٹی تک جاتا تھا اپنا پیغام بھیجا ۔
" آج میرے بیٹے کا نتیجہ نکلا ہے ۔ وہ اپنی جماعت میں اول آیا ہے ۔ دوپہر کو گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب ہے ۔ تمھارا بھتیجا کہتا ہے کہ چاچا کے بغیر مزہ نہیں آۓ گا ۔ لہذا تم فوراً چلے آؤ ۔ "
پیغام پڑھ کر مان نے گہری آہ بھری ۔ اس کا دل کہیں جانے کو نہیں چاہ رہا تھا ۔ کچھ دیر تک وہ یونہی بے خیالی میں بیٹھا رہا ۔ پھر اٹھا اور منہ ہاتھ دھو کر اپنا نیا سوٹ الماری میں سے نکالا اور پہن کر گھر سے نکل گیا ۔
ہاں راستے میں وہ بچے کے لئے تحفہ لینا نہیں بھولا تھا ۔ گھر میں زور شور سے تقریب جاری تھی ۔ بہت سے لوگ وہاں موجود تھے ، شروع میں مان کچھ بجھا بجھا رہا ۔ مگر پھر لوگوں میں گھل مل گیا ۔ اسے وہاں بہت مزہ آیا تھا۔ گھر آکر بھی وہ تقریب کے خیالوں میں کھویا رہا ۔
پھر ایک روز مان کو پیغام ملا ، لکھا تھا۔ " میرے دوست ! میں رات سے بہت بیمار ہوں ، لگتا ہے میرا آخری وقت آگیا ہے ۔
میری خواہش ہے جب میری جان نکلے تو تم میرے قریب موجود ہو ۔ "
مان اچھل کر کھڑا ہو گیا ۔ اس نے تیزی سے لباس بدلنا شروع کیا اور جلدی میں بازو اور گردن ، قمیض کے گریبان میں پھسا بیٹھا ۔ وہ غصے سے کچھ بُڑبُڑایا اور خود کو اس شکنجے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا , مگر ناکام رہا ۔ آخر وہ چلانے لگا۔ " ارے !! ۔۔۔۔۔ کوئی ہے جو مجھے آکر نکالے ۔
۔۔۔۔ میں پھنس گیا ہوں ۔ "
آخر اُس کے پڑوسی نے آ کر اس مصیبت سے نجات دلائی ۔ پھر اس نے موزہ پہننا ۔ مگر دوسرا ہم رنگ موزہ مل نہیں رہا تھا ۔ لہذا اس نے الگ رنگ کاموزہ پہن لیا اور اٹھ کر اس طرح بھاگا کہ اس کے ایک پیر میں جوتا تھا اور دوسرا وہ بھاگتے ہوئے پہننے کی کوشش کر رہا تھا ۔ پہاڑی ڈھلوان پر سے اترتے ہوئے وہ لڑھک گیا ، مگر فورا سنبھلا ۔
اس کی پڑوسن اپنی کھڑکی میں کھڑی تھیں ۔ وہ پورے گاؤں میں کہانیاں سنانے والی نانی کے نام سے مشہور تھیں ۔ مان کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر وہ چلائیں ۔ " کیا تمہارے گھر کی چھت گر رہی ہے ؟ یا تم شادی کرنے جا رہے ہو ؟ "
مگر مان نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا ۔
جب وہ فان کے گھر پہنچا تو دیکھا ۔ گھر میں مزیدار کھانوں کی خوشبوئیں آرہی ہیں اور فان جو اسے کھڑکی سے آتے دیکھ کر فوراً بستر پر لیٹ گیا تھا ، زور زور سے کراہ رہا ہے ۔
مان اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا ۔
" میرے دوست ! آخر تمہیں کیا بیماری ہے ؟ "
" بس ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہ پوچھو ، مجھے اس کا نام لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ فان ہانپتے ہوئے بولا ۔ " میں نے سنا ہے کسی زمانے میں دنیا کی آدھی آبادی اس سے ختم ہوگئی تھی ۔ "
یہ کہہ کر اس نے گہری آہ بھری ۔
مان اس کے ہاتھ پاؤں دبانے اور اسے حوصلہ دینے لگا ۔

کھانے کا وقت ہوا تو فان کی بیگم نے دسترخوان سجایا ۔ مان نے دیکھا اس پر کئی قسم کے کھانے ، پھل اور مٹھائیاں موجود ہیں ۔ اس نے فان سے پوچھا ۔ " کیا تمھیں طبیب نے پرہیزی کھانا نہیں بتایا ۔ "
" نہیں اس بیماری میں سب کچھ کھا سکتے ہیں ۔ "
فان بولا۔
اس نے ڈٹ کر کھانا کھایا اور ہنستا بولتا رہا ۔ شام کو جب مان واپس آنے لگا تو اسے پتا چلا کہ فان کو معمولی زکام ہے ۔

غرض یوں ہی دن گزرتے رہے ۔ فان اس کے ساتھ سایے کی طرح لگا رہتا تھا اور اسے بھی اپنے ساتھ ہر کام میں شریک رکھتا ۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ مان کی عادتیں بدلنے لگی ۔ اس کی اداسی اور سنجیدگی دور ہوئی تو وہ لوگوں سے ملنے جلنے لگا ۔ وہ ان کی تقریبات میں شریک ہوتا تھا اور انھیں بھی اپنے گھر بلایا کرتا تھا ۔ پھر ایک دن وہ شرمایا شرمایا فان کے پاس آیا اور بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا ، لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے ۔
آخر وہ مُدّعا زبان پر لے آیا ۔ " میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ " وہ شرماتے ہوئے بولا ۔
فان نے خوشی سے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور چلایا ۔
" میرے دوست ! یہ بات سننے کے لیے مجھے بہت انتظار کرنا پڑا ۔ خیر دیر آید درست آید ۔ میں ابھی اپنی بیگم سے کہتا ہوں کہ تمھارے لیے کوئی اچھی سی لڑکی تلاش کرے ۔"
کچھ دنوں بعد مان کی دھوم دھام سے شادی ہوئی ۔
جس میں پورا گاؤں شریک ہوا ۔ فان نے اپنے ہاتھوں سے اس کا گھر بھی سجایا تھا ۔ وہ بہت خوش تھا ۔ اس موقع پر کہانیاں سنانے والی نانی نے ایک لمبی چوڑی تقریر کی ۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے ایک دن مان کو بدحواسی سے عجیب وغریب حلیے میں بھاگتے دیکھا تھا ۔ وہ جب ہی سمجھ گئی تھیں کہ اب وہ جلد شادی کرنے والا ہے ۔ ان کی تقریر سن کر سب نے تالیاں بجائیں اور دولہا دلہن کو مبارکباد پیش کیں ۔
مان اور اس کی بیوی ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے ۔
یوں ایک دوست نے حکمت سے کام لے کر دوسرے کی خراب عادت کو بدل دیا ۔ آج بھی وہ دونوں اسی گاؤں میں رہتے ہیں اور جب بھی ملتے ہیں , پرانی باتوں کو یاد کر کے قہقہے لگاتے ہیں ۔

Browse More Moral Stories