Badgumani - Article No. 2264

Badgumani

بدگمانی - تحریر نمبر 2264

بدگمانیاں نہ کیا کرو بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں

منگل 24 مئی 2022

امی جان نے میز پر ناشتہ لگایا،افشاں اور شرجیل کو آواز دی کہ تیار ہو گئے ہو تو آ جاؤ،سکول بس آنے ہی والی ہے۔ناشتے کے بغیر سکول نہیں جانا چاہئے۔افشاں تیار ہو گئی تھی اپنا سکول بیگ سنبھالے کمرے سے باہر آئی اور امی جان کے ساتھ میز کے گرد بیٹھ گئی امی جان نے گرم گرم پراٹھا اور انڈا اس کی پلیٹ میں رکھا اور افشاں ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی،جبکہ شرجیل حسب معمول منہ پھلائے ہوئے تھا۔
”بیٹا آؤ ناشتہ کرو“ امی جان نے پکارا ”مجھے نہیں کرنا ناشتہ“ اس کی اس بات پر ابو بھی کمرے سے نکل آئے تھے۔بولے ”شرجیل یہ روز روز گھر کا ماحول خراب کرنا مجھے پسند نہیں ہے،آؤ اور ناشتہ کرو۔“
اس سے بدتمیزی سے کہا ”میں نے ایک دفعہ کہہ دیا ہے مجھے ناشتہ نہیں کرنا تو بس نہیں کرنا،اتنے میں سکول بس کا ہارن بجا تو افشاں اور وہ دونوں باہر لپکے۔

(جاری ہے)

دوپہر کو امی جان نے شرجیل کی پسند کا کھانا بنایا جب وہ دونوں سکول سے آئے تو امی جان نے بڑے پیار سے کہا کہ کپڑے تبدیل کرکے منہ ہاتھ دھو کر جلدی سے آ جاؤ میں نے تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے۔افشاں نے ایسے ہی کیا لیکن شرجیل نے اپنے کمرے میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیا ہے۔امی جان نے بہت کہا افشاں نے بہت کوشش کی لیکن شرجیل نے ضد پکڑ لی کہ میں نہیں آؤں گا بھوک لگے گی تو خود ہی کھا لوں گا۔
میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔افشاں مایوس واپس آ گئی،امی جان آزردہ ہو گئیں،ابو آئے تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔لیکن سب مل کر بھی شرجیل کی غلط فہمیاں دور نہ کر سکے۔شرجیل نے یہ معمول ہی بنا لیا تھا گھر میں اکھڑا اکھڑا رہتا،کسی کے کہنے پر کھانا نہیں کھاتا،بھوک لگتی تو خود ہی باورچی خانہ میں جا کر کھا لیتا کسی سے زیادہ بات نہیں کرتا بس جب جیب خرچ ختم ہو جاتا تو ابو سے مطالبہ کرتا کہ پیسے ختم ہو گئے ہیں ضرورت ہے دے دیں اور بس ابو امی جان اور افشاں سب پریشان تھے۔

بات اصل میں یہ تھی کہ افشاں اور شرجیل کی سگی امی کچھ سال پہلے وفات پا گئی تھیں۔وہ دل کی مریضہ تھیں بہت علاج معالجے کے باوجود زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکیں یہ صدمہ گھر بھر کے لئے بہت بڑا تھا۔افشاں شرجیل ابو اور دادی بہت عرصے تک اس صدمے کے زیر اثر رہے۔دادی جان جب تک زندہ تھیں انہوں نے گھر سنبھالے رکھا افشاں اور شرجیل کو ماں کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
افشاں اور شرجیل کے ابو اپنے کام میں کافی مصروف رہتے تھے۔دادی جان ان کا بہت خیال رکھتی تھیں لیکن کب تک بڑھاپے کے باعث گھر بھر کی ذمہ داریاں نبھانا ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا اس لئے انہوں نے ابو کو سمجھا بجھا کر دوسری شادی کے لئے رضا مند کر لیا اور ایک نیک خاتون سے ان کی شادی کر دی۔اگرچہ یہ افشاں اور شرجیل کی سوتیلی والدہ تھیں لیکن فطرتاً نیک تھیں وہ دونوں بہن بھائی کو اپنے بچے سمجھتی تھیں اور بہت پیار کرتی تھیں۔
افشاں نے ان کے پیار کا جواب پیار سے دیا اور انہیں اپنی امی کی طرح امی جان کہنا شروع کر دیا لیکن شرجیل کے ذہن میں سوتیلی ماں کا جو تصور پختہ ہو چکا تھا وہ نہ مٹ سکا۔وہ امی جان سے بدتمیزی سے پیش آتا ان کے پیار محبت کو دکھاوا سمجھتا،اسے لگتا وہ اصل میں ایسی نہیں ہیں جیسی نظر آتی ہیں۔ایک دن افشاں نے اسے بہت سمجھایا کہ میں بھی کہانیوں میں سوتیلی ماں کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکی ہوں۔
لیکن ضروری نہیں کہ ہر سوتیلی ماں بُری ہو زندگی میں ایسا ہوتا ہے کچھ رشتوں کو کھونا پڑتا ہے اور نئے رشتے نبھانے پڑتے ہیں ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں سوتیلی ماں اچھی ملی ہے۔
شرجیل نے سب سنا لیکن اس کے رویہ میں کوئی فرق نہ آیا۔دن گزرتے گئے جب شرجیل میٹرک میں پہنچا تو ان دنوں اس کے ابو کو اچانک کاروبار میں بہت بڑا خسارہ ہو گیا اور ان کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے حتیٰ کہ میٹرک کا داخلہ جانے والا تھا اور ان کے پاس داخلہ فیس کے پیسے نہیں تھے وہ سخت پریشان تھا۔
شرجیل ابو کے کمرے کی طرف گیا تاکہ انہیں بتائے کہ اگر فیس جلد ادا نہ کی تو وہ میٹرک کا امتحان نہیں دے سکے گا اور اس کا سال ضائع ہو جائے گا۔ابو کے کمرے سے باتوں کی آواز آ رہی تھی وہ دروازے پر ہی رُک گیا۔امی جان کہہ رہی تھیں شرجیل کا امتحان بہت اہم ہے آپ یہ بیچ دیں تاکہ اس کا داخلہ چلا جائے۔ابو کی پریشان کن آواز آئی تمہارے پاس یہ آخری انگوٹھی بچی ہے اتنے دنوں سے جو گھر بھر کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں وہ تمہارے زیورات بیچ کر ہی تو ہو رہے ہیں اب یہ آخری چیز بھی بیچ دوں گی؟
کوئی بات نہیں میرے زیور اتنے اہم نہیں ہیں وہ دوبارہ بھی بن سکتے ہیں انشاء اللہ آپ اس پریشانی سے جلد نکل آئیں گے۔
آپ یہ لے لیں اور فوری طور پر شرجیل کی داخلہ فیس کا انتظام کریں۔امی جان نے انگوٹھی ابو کی طرف بڑھائی تو ابو نے ہچکچاتے ہوئے پکڑ لی اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھے شرجیل جلدی سے دروازے سے ہٹا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں وہ دل میں بے حد شرمسار تھا کہ اس نے اس فرشتہ صفت خاتون کو ماں کا درجہ کیوں نہ دیا کیوں ہمیشہ ان کی دل آزاری کی۔
اب شرجیل کی تمام غلط فہمیاں دور ہو چکی تھیں وہ امی جان کا فرمانبردار اور لاڈلا بیٹا بن چکا تھا کچھ ہی عرصے میں ان کے حالات بہتر ہو گئے اسے سمجھ آ گئی تھی کہ سنی سنائی باتوں پر کبھی کوئی پختہ رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ ”بدگمانیاں نہ کیا کرو بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں“۔

Browse More Moral Stories