Saadi Ne Chirya Gher Dekha - Article No. 1663

Saadi Ne Chirya Gher Dekha

سعدی نے چڑیا گھر دیکھا - تحریر نمبر 1663

ایسا کرتے ہیں کہ اس اتوار کو چڑیا گھر چلیں گے، پھر آپ سارے پرندے خوب غور سے دیکھنا اور پاپا کو بتانا کہ ہمارے ہاں کون کون سے مہمان آتے ہیں

ہفتہ 15 فروری 2020

تسنیم جعفری
ننھا سعدی چار سال کا ہونے والا تھا لیکن ابھی تک اس کے سکول میں داخلے کے بارے میں کوئی ٹھیک ٹھیک فیصلہ نہیں ہوپایا تھا کہ آخراس کو کہاں اور کس سکول میں پڑھنا ہے ۔کیونکہ سعدی کے پاپا کا تبادلہ کسی دوسرے شہر ہونے والا تھا۔ممی کو سعدی کے سکول میں داخلے کی بہت فکر لگی رہتی تھی۔”ممی دیکھیں میں یہ کیا لایا ہوں․․․․․؟یہ بکرا مجھے باہر مل گیا تھا میں گھر لے آیا،اس کو کہاں باندھوں․․․․․؟“
ایک دن سعدی باہر سے آیا اور ممی سے بولا ،وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے اس کے ہاتھ میں بکرے کی رسی ہو اور وہ اس کو کہیں باندھنا چاہ رہا ہو۔

”بیٹا اس کو گھر کے اندر کیوں لے آئے گند پھیلائے گا،باہر صحن میں باندھنا۔“
”جی اچھا ممی․․․․․میں اس کو باہر لے جاتا ہوں،آپ اس کے کھانے کے لئے کچھ دے دیں۔

(جاری ہے)

“ممی ایک بار پھر پریشان ہو گئیں ،سعدی اکثر ایسا ہی کرتا تھا،اس کو جانوروں سے بہت پیار تھا،گھر میں قربانی کا بکرا آیا تھا جس کو وہ ابھی تک بھولا نہیں تھا۔”سعدی بیٹا․․․․میں چاہتی ہوں کہ آپ کا جلد از جلد سکول میں داخلہ ہو جائے اور آپ کی باقاعدہ پڑھائی شروع ہو جائے۔


”ممی آپ میرے سکول کی بالکل فکر نہ کریں․․․․․میں پڑھتا تو ہوں نا․․․․․!آپ مجھے اتنا اچھا پڑھاتی ہے ایسے تو کوئی بھی نہیں پڑھا سکتا،پھر مجھے سکول جانے کی کیا ضرورت ہے․․․․․․․میں تو بس آپ سے ہی پڑھوں گا۔“
سعدی نے ممی کو پریشان دیکھ کر تسلی دی۔اس کی اس ننھی منی سی تسلی سے ممی کو بہت خوشی ہوئی ،انہوں نے سعدی کو گود میں اٹھا لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا،”اتنے سمجھدار بیٹے کے ہوتے ہوئے بھلا مجھے کیوں فکر ہو گی ،اب آپ جا کر اپنا بیگ لے کر آؤ اور بیٹھ کر پڑھو،میں کھانا بنانے جا رہی ہوں،آپ کو کچھ کھاناہے․․․․․․؟“
”نہیں․․․․․․پایا کے آنے پر ہم کھانا کھائیں گے۔
“ممی چلی گئی تو سعدی نے بیگ کھول کر اردو کی کاپی نکالی اور لکھنے کی پریکٹس کرنے لگا۔
سعدی نا صرف سمجھدار تھا بلکہ بہت فرما نبردار بھی تھا،سب کا کہنا مانتا تھا اور سب کے کام خوشی خوشی کرتا تھا۔وہ انسانوں سے ہی نہیں جانوروں سے بھی بہت محبت کرتا تھا۔اس کے گھر کے صحن میں اگر کوئی پرندہ بھی آجاتا تو اس کی ایسے خاطر تواضع کرتا جیسے ممی مہمانوں کے آنے پر کرتی ہیں ،وہ جلدی سے کچن میں جاتا اور کھانے کے لئے جو چیز بھی ملتی تو ممی سے پوچھ کر اس ننھے مہمان کے آگے ڈال دیتا۔
رنگ برنگی تتلیاں تو اس کو بے حد پسند تھیں،ان کے پیچھے وہ سارا سارا دن بھاگتا رہتا تھا لیکن پکڑتا نہیں تھا کیونکہ ان کے پر خراب ہو جاتے ۔
گرمی کے موسم میں تو وہ روزانہ پانی سے بھرا برتن اپنے صحن میں رکھتا کہ کہیں کوئی ننھا مہمان پانی کی تلاش میں آئے تو پیا سا ہی نہ چلا جائے۔ ممی پاپا دونوں اللہ کا بہت شکر ادا کرتے تھے کہ ان کے بیٹے کی اتنی اچھی عادتیں ہیں کہ سبھی تعریف کرتے ہیں۔

دوپہر کو پایا کی گاڑی کا ہارن بجا تو سعدی جلدی جلدی اپنی کتابیں سمیٹنے لگا کیونکہ اب اس نے پاپا کے ساتھ کھانا کھانا تھا۔سعدی نے دروازہ کھولا تو پاپا نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور پوچھا:”اچھا تو آج ہمارے بیٹے نے کیا کام کیا․․․․․؟“”پتا ہے پاپا آج کیا ہوا․․․․؟“آج ہمارے گھر ایک عجیب مہمان آیا․․․․․“
سعدی نے تجسس سے بتایا۔

”عجیب مہمان ․․․․؟کون آیا تھا بھئی․․․․“پاپا نے حیرت سے ممی کی طرف دیکھا۔
”ادھر دیکھیں نا پاپا․․․․․میں بتاتا ہوں ۔“سعدی نے پاپا کا منہ اپنی طرف کیا۔
”پاپا اس کی لمبی دم اور سرنیلے رنگ کے تھے ․․․․․․وہ اتنا پیارا تھا نا پاپا․․․․․․․میں نے ایسا پرندہ پہلے کبھی نہیں دیکھا․․․․․․“سعدی کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔

”اوہ اچھا․․․․․نیل کنٹھ ہو گا ،وہ نیلے رنگ کا ہوتاہے۔“پاپا نے سعدی کی مشکل حل کی”اور کون کون سے رنگ تھے بیٹا اس میں․․․․․؟“
”اب تو یاد نہیں پایا․․․․وہ جلدی جلدی پانی پی کر اڑ گیا،میں اس کو ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں سکا ۔ میں اس کو غور سے دیکھتا تو بتا سکتا تھا کہ اس میں اور کون کون سے رنگ تھے۔مجھے تو صرف اس کا سر اور دم ہی نظر آئے تھے ،کیا وہ دوبارہ نہیں آسکتا پاپا․․․․․․؟“
”ایسا کرتے ہیں کہ اس اتوار کو چڑیا گھر چلیں گے، پھر آپ سارے پرندے خوب غور سے دیکھنا اور پاپا کو بتانا کہ ہمارے ہاں کون کون سے مہمان آتے ہیں․․․․اب ہاتھ دھو کر آجاؤ کھانا لگا دیا ہے۔

ممی نے آکر کھانا لگنے کی اطلاع دی تو وہ دونوں جلدی سے ہاتھ دھونے لگے کیونکہ پایا کو کھانا کھا کر دوبارہ آفس جانا ہوتاہے۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے ویسے بھی ہم بہت عرصے سے چڑیا گھر نہیں گئے․․․․․جب سعدی دو سال کا تھا تب گئے تھے ،تب بھی سعدی جانوروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔“پاپا کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
”تھینک یوممی․․․․․آپ کتنی اچھی ہیں۔

”ارے مگر اس سنڈے کو تو سعدی کی سالگرہ بھی آرہی ہے نا ،سعدی پورے چار سال کا ہو جائے گا۔“ممی نے یاد دلایا۔
”بس تو پھر اس بار سعدی کی سالگرہ ہم چڑیا گھر چل کر مناتے ہیں،کیونکہ سعدی ․․․․․؟“پاپا نے کہا۔
”اوکے ڈن․․․․!سعدی اس بات پر بہت خوش ہو گیا اور ممی کو بھی یہ آئیڈیا پسند آیا۔“
”پاپا․․․․․․پاپا اٹھیں نا،جلدی سے اٹھ جائیں اب۔

سعدی نے سوتے ہوئے پاپا کو زور زور سے ہلایا۔”کیوں بیٹا کیا ہو گیا ہے․․․․․“کون آگیا صبح صبح․․․․․․؟پاپا بوکھلا کر اٹھ بیٹھے۔
”آیا تو کوئی بھی نہیں پایا․․․․․․ہمیں جانا ہے،کیا آپ بھول گئے․․․․․․؟“
”اوہو․․․․․مگر اتنی صبح صبح ہمیں کہاں جانا ہے․․․․․کچھ پتا بھی تو چلے․․․․․؟“
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories