Bezubanoon Per Zulm - Article No. 1700

Bezubanoon Per Zulm

بے زبانوں پر ظلم - تحریر نمبر 1700

عدید جتنا عقل مند اور ذہین تھا اتنا ہی شریر اور من چلا بھی تھا وہ پن اور فن میں بہت ماہر تھا ۔بچے تو بچے بڑے بھی اس کے منہ لگنے سے گھبراتے تھے محلے والے اسے شیطان کا باپ کہا کرتے تھے بہت زیادہ بولتا تھا۔

جمعہ 3 اپریل 2020

توصیف سرور کمبوہ
عدید جتنا عقل مند اور ذہین تھا اتنا ہی شریر اور من چلا بھی تھا وہ پن اور فن میں بہت ماہر تھا ۔بچے تو بچے بڑے بھی اس کے منہ لگنے سے گھبراتے تھے محلے والے اسے شیطان کا باپ کہا کرتے تھے بہت زیادہ بولتا تھا۔عدید جب بچوں اور بڑوں کو چھیڑتے چھیڑتے اکتا جاتا تو غلیل لے کر کسی باغ میں نکل جاتا اور ننھی منی چڑیوں کا شکار کھیل کر دل بہلاتا کہیں کسی بھی پرندے کا گھونسلہ نظر آجاتا تو جب تک اسے توڑ پھوڑ کر نیچے نہ پھینک دیتا تب تک اسے چین نہ آتا۔
گھر میں چڑیاں یا کبوتر گھونسلہ بنا لیتے تو بیچاروں کی شامت آجاتی ۔اس کی والدہ اور دادا مجید اکثر اس کی چھترول کرتے لیکن وہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آتا سب محلے والے اس سے تنگ تھے اس کے دادا جی نے زمینوں پر مرغیاں رکھی ہوئی تھیں مگر میں یہ اُن کو تنگ بہت کرتا تھا۔

(جاری ہے)

آئے دن اُن میں سے کوئی نہ کوئی مرغی غائب ہو جاتی ۔مرغی کو گھر والوں سے چوری پکڑ کر اپنے کزنز حسن ،ضمن اور بھائی ارسلان کے ساتھ مل کر ذبح کر کے قریبی ہوٹل پر لے جاتے اور کڑاہی بنوا کر کھا لیتے ۔


اُن کی والدہ عنایت بی بی نے بڑے شوق سے مرغیاں پالی ہوئیں تھیں ۔ان کے انڈے وہ گھر میں بھی کھاتے اور باقی گاؤں میں بیچ دیتے جس سے اچھے خاصے پیسے مل جاتے لیکن اب روز ہی مرغیاں کم ہونے لگیں اور یہ سارے کار نامے عدید کرتا ۔اگر کہیں کوئی بد نصیب گدھا یا گدھی عدید کے ہتھے چڑھ جاتے تو ان کی واپسی درگت بنتی کہ وہ دھینچوں دھینچوں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔
عدید میاں کا خیال تھا کہ بے زبان جانوروں کو اللہ میاں نے پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ انہیں جس طرح چاہے مارا پیٹا جائے اور اپنا دل خوش کیا جائے ۔ایک دن عدید اکیڈمی سے ٹیوشن پڑھ کر گھر آیا تو اس کی طبیعت سست تھی وہ سوچنے لگا کس طرح دل بہلایا جائے ۔چھوٹے پرندوں کو تو وہ بہت تنگ کر چکا تھا کسی بڑے جانور کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
عدید سوچتے سوچتے سو گیا اُس نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک میدان میں پہنچ گیا سامنے ایک مریل سا گدھا گھاس چر رہا تھا گدھے کو دیکھ کر عدید میاں کھکھلا اٹھے کہ آج اس کی باری ہے اس کو ایسا دھوتا ہوں ساری زندگی یاد کرے گا ۔

عدید چپکے سے گدھے کے پاس گیا اور گردن پکڑ کر اس کا منہ رسی سے خوب جکڑ کر باندھ دیا بے چارہ گدھا اتنا کمزور اور دبلا پتلا تھا کہ چپ چاپ کھڑا اپنی درگت بنواتا رہا منہ باندھنے کے بعد عدید اچک کر اس کی پیٹھ پہ چڑھ گیا اور دھونے لگا اور رسی کھینچ کراس کے اوپر اچھی طرح لپٹ گیا اور پھر بولا ہاں بیٹا !مزا آرہا ہے مجھے تو بہت آرہا ہے اب ذرا کھیتوں کی سیر ہو جائے بہت دنوں سے سواری کے لئے ترس رہا تھا۔
گدھے نے دیکھا کہ بن چلے گزارہ نہیں تو آہستہ آہستہ چلنے لگا جتنی اس میں ہمت تھی مگر عدید کو اس کی سست چال بڑی بُری معلوم ہوئی زور سے رسی کھینچی اور لات ،رکر بولا”ہوں! ذرا چال دکھا چال!“ہاں ایسے اور تیز میں تپنے لگاہوں اچھا ٹھہر جا ․․․ایسے نہیں تو مانے گا یہ کہہ کر عدید نیچے اترا اور پیڑ سے موٹا سا ڈنڈا توڑ کر اس کی پٹائی شروع کر دی گدھا ڈنڈے کھا کر اور بے حال ہو گیا جیسے تیسے ہو سکا بھاگا اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی ۔

عدید اس پر ڈبل ظلم کر رہا تھا اور اس کو گدھے پر ذرا ترس نہ آرہا تھا اس کی پیٹھ زخمی ہو گئی وہ درد سے بلبلا رہا تھا عدید زخمی پیٹھ پہ جما بیٹھا تھا تکلیف کے مارے گدھا چیخنے لگا عدید بولا !ہوں تو اب بہانے ہو رہے ہیں ؟ٹھہر جانا معقول اگر مارتے مارتے چمگادر نہ بنا دیا تو میرا نام عدید نہیں یہ کہہ کر سڑاک سڑاک دس پندرہ آنڈے اس کے منہ پر جڑدئیے لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔
اس کے آنسو بہہ رہے تھے اور بدن کانپ رہا تھا ایک دفعہ تو اس نے عدید کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو !تو کس قدر پتھر دل ہے مرتے کو مارنا کہاں کی انسانیت ہے ۔خدا کے لئے مجھ پہ رحم کر اور مجھے چھوڑ دے مگر عدید رحم کے معنی نہیں جانتا تھا اس نے خوب دل کی بھڑاس نکالی اور گدھے کو مار مار کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا ۔گدھے نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا!”گدھا میں نہیں تم ہو“
گدھے کو بولتا دیکھ کر عدید کی سٹی گم ہو گئی آج تک اس نے کسی جانور کو اس طرح بولتے نہیں دیکھاتھا گھبرا کر نیچے اُتر آیا اور ہلکا کر بولا ”تو ․․․․․تو․․․․بولتا بھر․․․․بھی ․․․․․بھی ہے ؟گدھے نے آہستہ سے سر ہلایا اور بولا کیا کروں پھر ؟بولنا ہی پڑا۔
میں بوڑھا کمزور جانور چلنے کی مجھ میں سکت نہیں مالک نے گھر سے نکال دیا ہے اور اب آپ بجائے اس کے کہ مجھ پر ترس کھائیں اُلٹا ظلم کر رہے ہیں کاش!آپ بھی میری طرح جانور ہوتے پھر آپ کو پتہ چلتا کہ ہم بے زبانوں میں بھی جان ہوتی ہے اور ہم بھی دکھ درد اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح انسان، یہ کہہ کر گدھا ایک طرف چل دیا اور عدید میاں سر کھجاتے رہ گئے ۔

اچانک سامنے سے تصدق علی عرف صدر بڑا سا ڈنڈا پکڑے بھاگا چلا آرہا تھا اور جب صدر عین عدید کے پاس پہنچا تو پانچ چھ ڈنڈے اس کو جمائے اور چار ڈنڈے اس کے منہ پہ مارے اور غصے سے بولا!”کام چور نمک حرام کام سے چھپا پھر تاہے رسی تڑوا کر بھاگ آیا ہے برتن تیرا باپ پل مرادپہ لے کر جائیگا اور زمینوں سے چارہ کون لائے گا؟“تو گھر چل تیری ایسی مرمت کرونگا کہ عمر بھر یاد رکھے گا !عدید کو بہت غصہ آیا یہ گنوار صدر اسے مارے جانتا نہیں یہ خبیث کمہار کہ اس کے چاچو افضل پولیس میں تھانیدار میں پیٹھ سہلا کر بولا”نالائق تیری یہ جرات کہ تو مجھ پہ ہاتھ اُٹھائے چاچو سے کہہ کر تجھے حوالات میں بند کرو ادونگا۔
بے غیرت تو نے مجھے گدھا سمجھ رکھا ہے جو میں برتن بازار لیکر جاؤں اور مویشیوں کے لئے چارہ لاد کر لاؤں؟تصدق صدر کمہارنے لال لال دیدے دکھائے اور عدید کو ایک ڈنڈا زور سے مار کر بولا!اب میں تیرے اوپر پہلے سے بھی زیادہ بوجھ ڈالا کروں گا ۔صدر کمہار اس کی پیٹھ پہ ڈنڈے مارتا رہا اور پنتے پیٹتے عدید کی دم اور پیٹھ لہو لہان ہو گئی عدید کو غش سا آنے لگا اور اس کی نظروں کے سامنے تارے سے ناچنے لگے وہ چیخیں مار مار کر رونے لگا ۔

اے خدا !کیا میں سچ مچ گدھا بن گیا ہوں یہ کیا ہو گیا!پروردگار!برتن لاد کر صدر نے پیچھے سے ایک ڈنڈا مارا اور ڈانٹ کر بولا چل اب سیدھی طرح “وہ روتا دھوتا قسمت کو کوستا چلا جا رہا تھا یکا یک اس نے اپنے آپ کو اس طرح جھٹکا دیا کہ سارے برتن نیچے گر کر چکنا چورہو گئے ۔برتن گرنے کے بعد وہ بے تحاشا بھاگنے لگا بھاگم بھاگ ․․․چلا جا رہا تھا سر پت اندھا دھند ․․․․پیچھے صدر کمہار ڈنڈا گھماتا آرہا تھا ”پکڑنا پکڑنا یہ میرا گدھا ہے ،عدید کے گھر کے باہر کھمبا تھا عدید جو تیزی سے اپنے گھر کی طرف مڑا تو اس کا سر بڑے زور سے بجلی کے کھمبے سے جا ٹکڑایا اور ․․․․․وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا اس کی والدہ عنایت بی بی اس کے سرہانے کھڑی تھی وہ کہہ رہی تھی ۔
شاباش بیٹا آفرین ہے تم پر ․․․آج تو تم شیطان سے شرط باندھ کر سوئے تھے نو بج رہے ہیں اور تم ابھی تک سوئے پڑے ہو ،عدید نے آنکھیں جھپک کر پہلے امی جان کو دیکھا اور پھر اپنے آپ کو !ارے تو کیا میں خواب دیکھ رہا تھا لاحول پڑھ کر اٹھ بیٹھا مگر صدر کے ڈنڈے کا خوف ابھی تک اس کے دل میں بیٹھا رہا ۔وہ اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا باہر اس کا کزن حسان ڈنڈا لئے مرغی کے پیچھے بھاگ رہا تھا عدید نے یہ منظر دیکھ کر فوراً حسان کو ڈانٹ کر کہا !یہ کیا کر رہے ہو شرم نہیں آتی ہے بے زبانوں کو تنگ کر رہے ہوں؟اگر میں تمہیں اس طرح پریشان کروں تو ؟اس دن سے عدید میاں بڑے رحم دل اور خدا ترس ہو گئے کبھی کسی جانور کو تنگ نہیں کیا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی آئندہ کے لئے توبہ کرلی !اب وہ پرندوں اور جانوروں کا بہت خیال رکھتا تمام لوگ حیران تھے کہ عدید کی عادت میں تبدیلی کیسے ہو گئی انہیں کیا پتہ یہ سب کچھ صدر کے ڈنڈے کی کرامت تھی۔

Browse More Moral Stories