Daad Aur Salam - Article No. 893

Daad Aur Salam

دادا اور سلام - تحریر نمبر 893

ہمارے دادا جان کی عادت تھی کہ وہ ملنے والے ہر آدمی کوسلام کیاکرتے تھے، چاہے جان پہچان ہویا نہ ہو ہمیں بعض اوقات ان کی اس عادت کی وجہ سے شرمندگی کا احساس ہوتا تھا، مگر بعد میں پتا چلا کہ مذہبی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کرتے تھے۔

پیر 15 فروری 2016

صدف عنبرین:
ہمارے دادا جان کی عادت تھی کہ وہ ملنے والے ہر آدمی کوسلام کیاکرتے تھے، چاہے جان پہچان ہویا نہ ہو ہمیں بعض اوقات ان کی اس عادت کی وجہ سے شرمندگی کا احساس ہوتا تھا، مگر بعد میں پتا چلا کہ مذہبی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کرتے تھے۔ دادا جان تو چلتے پھرتے نیکیاں کما رہے تھے۔ وہ لوگوں کوسلام کی صورت میں دعا دیتے اور لوگ بھی جواب میں ان کو دعا دیتے تھے۔

یہ دسمبر کا واقعہ ہے۔ کالے کوٹ اور ہیٹ میں ایک آدمی اپنی لمبی کارسے اُتر کر سامنے اسٹور میں جارہا تھا، جس کے لیے اُسے ہمارے پاس سے گزرنا تھا۔ جب وہ قریب آیاتو دادا ابانے بلند آواز سے السلام وعلیکم“ کہا۔ دادا اباسلام کرکے آگے بڑھ چکے تھے اور میں کن انکھیوں سے اُس آدمی کودیکھ رہاتھا، جو حیران پریشان پیچھے مڑکر دیکھ رہا تھا، پھر اُس کے لب معمولی سے ہلے، شاید اُس نے ” وعلیکم السلام“ کہا تھا۔

(جاری ہے)


میری ہنی اور شرمندگی دونوں ہی دادا ابا کی تیز نگلاہوں سے چھپی نہ رہ سکیں۔ انھوں نے پوچھ ہی لیا: کیوں برخودار! مسلمان گھر کے بچے ہو، پھر یوں سلام پر ہونقوں کی طرح سرکیوں گھماتے چلے آرہے ہو؟ تم بھی کچھ زبان کو تکلیف دے لو۔ دادا بانے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
میں اپنی اُلجھن دور کرنے کے لیے کہا: دادا با! لوگ ہنستے ہوں گے، جان نہ پہچان، سلام بھائی جان!
ہنستے ہوں گے؟ کیایہ لوگ تمھیں غیر مسلیم دکھائی دے رہے ہیں؟ ہمارے رسول اللہ ﷺ کاحکم بھی ہے اور سنت بھی کہ سلام کوعام کرو۔
خدا اور رسولﷺ کاکوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا، بچے یہ سن کر میں نے سرجھکا دیا۔
ہمیں نئی نویلی سائیکل خرید کردی گئی تھی اور پھر اسکول کی چھٹیاں بھی تھیں۔ ہماری تو عید ہی تھی۔ نئی سائیکل کا جوش ہمیں اپنے محلے سے کچھ آگے لے آیا تھا، مگر کوئی بات نہیں کتنی دور چلے جائیں، چند منٹ میں واپس آسکتے ہیں۔ ہم نے پیار سے اپنی سائیکل تھپ تھپائی۔
سامنے ہی خوب صورت باغ تھا، جس میں طرح طرح کے پھول لگے ہوئے تھے اور خوب صورت جاگنگ ٹریک ( دوڑ لگانے والا راستہ) گویا ہمیں سائیکل چلانے کی دعوت دے رہاتھا۔ ابھی ہم اندر داخل ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ہمارے گردن دبوچ لی، اب جو مڑکردیکھا تو وہاں کاچوکیدار خونخوار نظروں سے گھور رہاتھا اور قریب ہی رہنے والے کچھ لوگ بھی کھڑے تھے۔
کیا ہوا بھئی! ہم سائیکل چلانے آئے ہیں۔
ہم نے بھی زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر گردن چھڑاتے ہوئے کہا۔
مجھے لگتا ہے، یہی لڑکا ہے جو روز باغ سے پھول توڑ کرلے جاتاہے! چوکیدار نے کسی سے کہا۔ اس کے الفاظ نے گویا ہماری روح ہی فنا کردی۔
کہاں رہتے ہوتم؟ اس محلے میں؟ ایک قدرے معقول آدمی نے آگے بڑھ کر ہم سے سوال کیا۔
نہیں نہیں، ہم تووہاں سے ، اُدھر سے، گھر قریب ہے ہمارا۔
اب مکمل طور سے گڑبڑا کر اُلٹا سیدھا بھول رہے تھے۔ وین سے اسکول اور اسکول سے گھر آتے جاتے راستوں سے زیادہ مانوس نہیں تھے۔
کیا ہوا بھئی؟ ایک اور شخص کابھیڑ میں اضافہ ہوا: کون ہے یہ؟ آنے والے بغور ہمارا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔
فراست صاحب! یہ چور ہے، پھول چراتاہے۔ چوکیدار کے ان الفاظ پرہمارا دل تڑپ اُٹھا۔
ذرا آرام سے خاں صاحب! یہ بچہ تو کل عشا کی نماز پڑھ کر کسی بزرگ کے ساتھ برابر والی کالونی کی مسجد سے نکل رہاتھا۔
کسی معززگھرانے کابچہ لگتا ہے۔ اجنبی نے چوکیدار کوٹوکا توہم نے بھی نظر اُٹھائی۔ یہ تو کالے کوٹ اور ہیٹ والا وہی اجنبی تھا، جسے کل دادا ابانے نے سلام کیا تھا۔
آپ جانتے ہیں اس کے گھر والوں کو؟ لوگوں نے مطمئن انداز میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے قدم بڑھائے۔
جانتا ہوں، سلام کلام ہوجاتاہے․․․․ کوٹ والاا جنبی مجھے لے کر میرے محلے کی جانب بڑھا۔

بیٹھا! گھر تو پہچان جاؤ گے نااپنا؟ اجنبی نے پیارسے پوچھا۔
جی ․․․ وہ․․․
ارے تم کہاں سے چلے آرہے ہو، تمھارے دادا مسجد میں کھڑے تمھیں ڈھونڈ رہے ہیں؟ سامنے ہی پھل والا ریڑھی گھسیٹتا ہمارے قریب آیا اور انکل کومشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
میں راستہ بھول گیاتھا۔ انھوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ سامنے مسجد سے حی الفلاح کی صدائیں آرہی تھیں اور گیٹ پر ہی مجھے دادا ابا نظر آرہے تھے۔
میں انکل کا شکریہ ادا کرکے تیزی سے مسجد کی طرف دوڑا۔ سائیکل باہر کھڑی کرکے میں اندر داخل ہوا۔
السلام وعلیکم بابا ! میں جیب سے ایک رپے کاسکہ نکال کر سیڑھی پہ بیٹھے فقیر کے ہاتھ میں تھمایا۔
السلام وعلیکم انکل! السلام وعلیکم انکل! میں نے وضو کے لیے بیٹھے ہوئے دائیں بائیں دونوں طرف سلام کیا اور وضو کے لیے آستین کے بٹن کھولنے لگا۔ دادا ابا مجھے دیکھ کر مطمئن انداز میں اگلی صفوں کی جانب بڑھ گئے۔
اور میری سمجھ میں بھی اچھی طرح آگیا کہ اللہ اور رسول ﷺ کاکوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا، مگر ہم نادان تجربہ کیے بغیر سمجھ نہیں پاتے۔

Browse More Moral Stories