Shehzade Ki Behen - Last Episode - Article No. 1565

Shehzade Ki Behen - Last Episode

شہزادے کی بہن (آخری قسط) - تحریر نمبر 1565

جادوگرنی کمرے سے باہر نکلی تو وہاں چودہ پندرہ سال کی ایک خوبصورت پری اس کی منتظر تھی- اس پری کا نام حسینہ پری تھا اور وہ حسن آرا جادوگرنی کی بڑی بہن کے چھوٹے بچے کی خادمہ تھی

Mukhtar Ahmad مختار احمد جمعرات 7 نومبر 2019

جادوگرنی کمرے سے باہر نکلی تو وہاں چودہ پندرہ سال کی ایک خوبصورت پری اس کی منتظر تھی- اس پری کا نام حسینہ پری تھا اور وہ حسن آرا جادوگرنی کی بڑی بہن کے چھوٹے بچے کی خادمہ تھی- جادوگرنی نے فرید کو اس کے حوالے کر تے ہوۓ کہا- "اس حیرت انگیز اور انوکھے خرگوش کو میری طرف سے سالگرہ کے موقعے پر میرے بھانجے کو دے دینا اور میری بہن سے کہہ دینا کہ میں بہت جلد اس سے ملنے کے لیے اس کے پاس آوں گی- سالگرہ کے موقعہ پر یوں نہیں آسکتی کہ فی الحال میں بہت مصروف ہوں- سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی-"

"آپ تو بہت امیر معلوم دیتی ہیں- سر کھجانے کے لیے کوئی ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتیں؟" حسینہ پری نے کہا-

"میری بہن بھی بہت بے وقوف ہے- اس نے کیسی کوڑھ مغز خادمہ کا انتخاب کیا ہے جو محاوروں تک کے مفہوم سے نا واقف ہے-" حسن آرا نے منہ بنا کر کہا-

حسینہ پری کچھ شرمندہ سی ہوگئی تھی- اس نے مزید کچھ اور نہیں کہا اور چپ چاپ مڑ کر باہر کی جانب چل دی- جادوگرنی کے محل سے باہر نکلتے ہی اس کے خوبصورت پروں نے حرکت کی اور پھر وہ فضا میں بلند ہوتی چلی گئی- اس نے فرید کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اس کا رخ پرستان کی طرف تھا-

حسینہ پری تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اچانک اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا- وہ دو بارہ زمین پر اتر آئ اور دونوں ہاتھوں سے سر کو دبا کر کرا ہنے لگی-

"اچھی پری کیا بات ہے؟" فرید نے ہمددری سے پوچھا-

اس کو بولتا دیکھ کر حسینہ پری اپنا درد بھول گئی اور حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی- اس کو حیرت زدہ پا کر فرید نے اس کو اپنی کہانی سنائی-

حسینہ پری بولی- "یہ حسن آرا جادوگرنی تو بہت خراب عورت ہے- بے گناہ لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ کرتی ہے- اس کی بڑی بہن جس کے چھوٹے بچے کی میں خادمہ ہوں بے حد مہربان اور خوش اخلاق عورت ہے- یہ ہی وجہ ہے کہ وہ آج پرستان میں مزے سے رہ رہی ہے اور اس کی شادی وہاں کے ایک مشہور تاجر سے ہوگئی ہے اور وہ اپنے بچے اور شوہر کے ساتھ نہایت خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے-"

باتوں کے دوران حسینہ پری کو سر کا درد کچھ زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر جب وہ دونوں خاموش ہوۓ تو وہ دوبارہ سر میں تکلیف محسوس کرنے لگی- اس نے فرید سے کہا- "میں تو اس سر درد کی وجہ سے عاجز آ گئی ہوں- میں نے اس کے لیے ہزارہا علاج کر ڈالے ہیں مگر اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکی ہوں- یہ یکا یک اٹھتا ہے اور گھنٹوں رہتا ہے-"

فرید اس پر بولا- "میرے ابّا طبیب ہیں- پورے شہر میں ان جیسا کوئی دوسرا طبیب نہیں ملے گا- ان کے پاس اس مرض کی دوا ہے- اگر میں اپنی اصلی شکل میں ہوتا تو ضرور آپ کی مدد کرتا-"

حسینہ پری مایوسی سے بولی- "تمہیں تو حسن آرا جادوگرنی ہی اپنی اصلی شکل میں لا سکتی ہے-"

فرید نے کہا- "میرے خیال میں آپ یہیں کچھ دیر تک بیٹھ کر آرام کریں- میں شہزادہ عثمان کی چھوٹی بہن ثریا کو سب کچھ بتا کر آ جاتا ہوں- وہ یہ سب باتیں شہزادے عثمان کے دوست احسن کو بتا دے گی اور شہزادہ عثمان کا یہ دوست چونکہ بہت بہادر ہے اس لیے وہ ضرور اس جادوگرنی کو ٹھکانے لگا دے گا- جب جادوگرنی مر جائے گی تو پھر شہزادہ عثمان اور میں دونوں ٹھیک ہو جائیں گے- پھر میں اپنے گھر جا کر آپ کو وہ دوائی جو پانچ سو تین قیمتی جڑی بوٹیوں سے تیار ہوئی ہے اور جس کا نام گل گورو سیاہ ہے لا کر دے دونگا- اس کی ایک ہی خوراک آپ کے سر درد کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی-"

حسینہ پری اس تجویز پر کھل اٹھی- وہ اپنے اس اچانک رونما ہونے والے مرض کے ہاتھوں سخت پریشان تھی اور ہر قیمت پر اس کا علاج چاہتی تھی- فرید کی باتیں سن کر اسے یقین ہو چلا تھا کہ گل گورو سیاہ سے اسے ضرور افاقہ ہوگا- اس نے فرید کو شہزادی سے ملنے کے لیے جانے کی اجازت دے دی اور خود درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی- اس کے سر درد میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا-

فرید پھدکتا ہوا اور دوڑتا ہوا محل کی جانب چل دیا- ہر طرف تاریکی پھیل چکی تھی مگر فرید کو جنگل کے راستوں سے کافی واقفیت ہو گئی تھی- اس لیے اسے راستہ طے کرنے میں کوئی دشواری محسوں نہیں ہورہی تھی- اپنی تیز رفتاری کی بنا پر وہ جلد ہی شہزادہ عثمان کے محل میں پہنچ گیا-

وہاں پر شہزادے کی گمشدگی کی وجہ سے سب پریشان تھے- فرید سب کی نظروں سے بچتا بچاتا شہزادی ثریا کے کمرے میں گھس گیا- شہزادی ثریا اپنے بھائی کی جدائی کی وجہ سے اپنی مسہری پر پڑی آنسو بہا رہی تھی- فرید اچک کر مسہری پر چڑھ گیا- شہزادی ثریا کی نظر جب اس پر پڑی تو وہ چونک کر سیدھی بیٹھ گئی اور رونا دھونا بھول کر حیرت سے فرید کو گھورنے لگی- اسے اپنے کمرے میں ایک خرگوش کی موجودگی پر سخت حیرانی تھی- اور پھر خرگوش بھی ایسا کہ جس کے جسم پر رنگین دھاریاں تھیں اور اس کی آنکھیں سبز تھیں اور گھپے دار دم بہت خوبصورت تھی-

فرید نے زیادہ وقت برباد کرنا مناسب نہ سمجھا اور مختصرا ً اپنا تعارف کرانے کے بعد شہزادہ عثمان پر جو کچھ بیت رہی تھی اس کے گوش گزار کر دیا- تمام داستان سن لینے کے بعد شہزادی ثریا پریشانی سے بولی- "مگر عثمان بھیا نے اپنے جس دوست سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے وہ تو دوسرے شہر گئے ہوۓ ہیں، ان کی واپسی پتہ نہیں کب ہوگی-"

"پھر اب کیا کیا جائے؟" فرید نے بے چینی سے پوچھا-

"میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں- میں ضرور اپنے بھیا کو اس جادوگرنی سے چھڑا کر لاؤں گی-" شہزادی ثریا نے پر یقین لہجے میں کہا-

فرید کو امید تو نہیں تھی کہ دس بارہ سال کی یہ شہزادی حسن آرا جادوگرنی کو ٹھکانے لگا سکتی ہے- اس نے شہزادی ثریا کو اس امر سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، عجیب عجیب شکلیں بنا کر شہزادی ثریا کو بتانے کی کوشش بھی کی کہ حسن آرا کتنی خوفناک ہے مگر شہزادی اپنی ضد پر اڑی رہی- لہٰذا مجبور ہو کر فرید بھی چپ ہوگیا-

وہ دونوں چھپ کر محل سے نکلے- شہزادی ثریا نے اصطبل سے ایک گھوڑا بھی کھول لیا تھا- چونکہ تمام غلام اور دوسرے لوگ شہزادہ عثمان کی گمشدگی سے پریشان تھے اور ادھر ادھر پھر رہے تھے، اسلئے ان میں سے کوئی بھی شہزادی ثریا کو نہ دیکھ سکا- فرید کو پری کا سر درد یاد آگیا- اس نے سوچا کہ بہتر یہ ہوگا کہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس بھیج کر یہ دوائی منگوا لے- یہ سوچ کر اس نے شہزادی کو اپنے گھر بھیج دیا تاکہ وہ وہاں سے گل گورو سیاہ کی چند خوراکیں اس کے باپ سے لے آئے- جب شہزادی ثریا دوائی لے آئ تو فرید اسے ساتھ لے کر جنگل کے اس حصے میں آیا جہاں پر حسینہ پری بیٹھی تھی- اس کے سر کے درد نے شدّت اختیار کر لی تھی اور حسینہ پری کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے تھے-

شہزادی ثریا نے اسے جلدی سے گل گورو سیاہ کی ایک خوراک دی جس کو کھاتے ہی حسینہ پری کا سر درد کافور ہوگیا اور وہ مسکرانے لگی- پھر اس نے فرید اور شہزادی ثریا کا باری باری شکریہ ادا کیا اور بولی- "فرید تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے لہٰذا اب میرا بھی فرض ہے کہ میں تمھاری مدد کروں- میں ایک ایسی بات جانتی ہوں کہ جس سے تمھاری اور شہزادہ عثمان کی مشکل حل ہو سکتی ہے-"

"جلدی سے بتائیے وہ بات-" فرید نے بے تابی سے کہا-

"میں عرصے سے حسن آرا جادوگرنی کی بہن کے گھر ملازمہ ہوں- ایک روز میں دسترخوان چن رہی تھی- حسن آرا جادوگرنی اور اس کی بڑی بہن یعنی میری مالکن بھی وہیں موجود تھی- حسن آرا جادوگرنی کو ڈینگیں مارنے اور اپنی بڑائی جتانے کا بہت شوق ہے- وہ اپنی بہن سے کہنے لگی کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گی- کیوں کہ میں نے اپنی جان اپنے گلے کے ہار میں پروئے ہوۓ ایک موتی میں بند کر دی ہے- اس نے یہ بات بہت آہستگی سے کہی تھی مگر میں نے اس کو سن لیا تھا- اب تم کسی طرح اس ہار کو حاصل کرنے کی کوشش کرو- وہ ہار اگر تمہارے ہاتھ لگ گیا تو تمام پریشانیاں ختم ہوسکتی ہیں-" پھر اس نے شہزادی ثریا کو ایک آئینہ دیا اور بولی- "شہزادی- یہ جادو کا آئینہ ہے- اس کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں بدصورت سے بدصورت شکل بھی بے حد حسین اور خوبصورت نظر آنے لگتی ہے- اس کو اپنے پاس رکھ لو- شائد تمہارے کسی کام آجائے-"

یہ کہہ کر حسینہ پری نے شہزادی ثریا اور فرید سے اجازت لی اور وہاں سے پرواز کرتے ہوۓ پرستان کی جانب روانہ ہو گئی- شہزادی ثریا حسینہ پری کے دیے جادو کے آئینے کو ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہی تھی- سوچتے سوچتے اچانک اس کے لبوں مسکراہٹ آ گئی اور پھر وہ مطمئن انداز میں سر ہلانے لگی-
____________

شہزادی ثریا نے فرید کو وہیں رکنے کی تاکید کی اور خود حسن آرا جادوگرنی کے محل کی طرف چل دی جہاں پر اس کا بھائی آدھا پتھر کا بنا ہوا تھا اور جس سے شادی کرنے کی خواہش حسن آرا جادوگرنی کے دل میں تھی- فرید کو وہ اپنے ساتھ اس لیے نہیں لے گئی تھی کہ کہیں حسن آرا کی اس پر نظر نہ پڑ جائے، اس سے سارا کھیل بگڑ جاتا-

محل میں گھستے ہی شہزادی کی مڈھ بھیڑ حسن آرا جادوگرنی سے ہوگئی- پہلے تو جادوگرنی نے شہزادی ثریا کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر غصے میں بھر کر بولی- "تجھے میرے گھر میں بغیر اجازت گھسنے کی جرات کیسے ہوئی- کیا تو یہ نہیں جانتی کہ یہ میرا محل ہے؟"

"میں سب کچھ جانتی ہوں"- شہزادی ثریا نے بڑے اطمینان سے جواب دیا- "تم نے ایک شہزادے کو پکڑ کر اسے آدھا پتھر کا بنا دیا ہے- تم اس سے شادی کرنا چاہتی ہو، مگر اس نے تمھاری بطخ جیسی شکل دیکھ کر صاف انکار کر دیا ہے- مگر حسن آرا جادوگرنی تمہیں گھبرانے، پریشان ہونے اور فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- تم دنیا کے سب سے خوبصورت شہزادے سے شادی صرف اس لیے کرنا چاہتی ہو نا کہ اپنی بہن کو نیچا دکھا سکو- میں اس نیک کام میں تمھاری مدد کرنے کے لیے ہی حاضر ہوئی ہوں اور مجھے جادوگروں کے سردار سامری جادوگر نے بھیجا ہے-"

حسن آرا جادوگرنی جو شہزادی ثریا کی باتیں بڑی حیرت سے سن رہی تھی، سامری جادوگر کے نام پر اچھل پڑی-

"اگر سامری جادوگر میری مدد پر آمادہ ہو گیا ہے تو میں ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گی-" اس نے خوشی سے کہا- "سامری جادوگر نے میرے لیے کیا پیغام بھیجا ہے-؟"

"بات دراصل یہ ہے کہ سامری جادوگر بلا ضرورت کسی کی مدد نہیں کرتا- اس کے پاس ایک بہت ہی خوبصورت لوٹن کبوتر ہے- اس نے چند دنوں سے دانہ کھانا اور پانی پینا چھوڑ دیا ہے- بس ہر وقت کسی سوچ میں گم رہتا ہے- سامری جادوگر کو اپنے اس کبوتر سے بہت پیار ہے- اس نے اپنے جادو سے پتہ لگایا ہے کہ اگر کبوتر کی چونچ کو تمہارے گلے میں پڑے ہوۓ ہار سے لگا دیا جائے تو کبوتر کی تمام اداسی لمحہ بھر میں ختم ہو جائے گی اور وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا- سامری جادوگر کو یہ بھی معلوم ہے کہ تم شہزادہ عثمان سے شادی کی خواہش مند ہو- لہٰذا اگر تم سامری جادوگر کی مدد پر آمادہ ہو جاؤ تو وہ بھی تمھاری مدد کر سکتا ہے-"

"نہیں بھئی میں اس سودے پر تیار نہیں ہوں-" جادوگرنی بولی- "اس ہار کو میں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہوں-"

"تم شائد اس بات سے خوف زادہ ہو کہ سامری جادوگر کہیں اس ہار کو تباہ کر کے تمہیں موت کے گھاٹ نہ اتار دے- کیونکہ اس ہار کے ایک موتی میں تمھاری جان ہے-"

"ارے تم سب باتوں کو جانتی ہو"- حسن آرا جادوگرنی تعجب سے بولی- "اس بات کو تو میں نے راز میں رکھا تھا- اور سوائے میری بہن کے کوئی بھی اس راز سے واقف نہیں تھا-"

"سامری جادوگر اپنے جادو سے تمام باتیں معلوم کر لیتا ہے- پھر تمہیں مار کر اسے دھیلے بھر کا بھی فائدہ نہیں ہوگا اور تم تو یہ جانتی ہوگی کہ بغیر فائدے کے تو وہ اپنے گھر سے بھی نکلنا پسند نہیں کرتا تم جیسی عورت کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے-"

یہ بات جادوگرنی کی سمجھ میں آگئی- وہ بولی- "ٹھیک ہے میں تمہیں اپنا یہ ہار دینے کو تیار ہوں مگر سامری جادوگر سے کہنا کہ وہ اسے جلد ہی واپس کردے- لیکن سامری جادوگر میری شادی شہزادہ عثمان سے کس طرح کراے گا؟"

"اس نے مجھے ایک جادو بتایا ہے جس سے تمھاری شکل و صورت انتہائی حسین و جمیل ہو جائے گی- تم مجھے ہار دو- میں تمھاری شکل تبدیل کر دوں گی- تمہارے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر شہزادہ عثمان تم سے فوراً شادی کرنے پر رضا مند ہو جائے گا-"

حسن آرا جادوگرنی نے جھٹ اپنے گلے سے وہ ہار اتار کر شہزادی ثریا کے حوالے کردیا جس کے ایک موتی میں اس نے اپنی جان بند کر رکھی تھی- شہزادی ثریا نے حسینہ پری کا دیا ہوا جادو کا آئینہ نکالا جس میں بدصورت سے بدصورت شکلیں بھی انتہائی حسین نظر آنے لگتی تھیں- پھر اس نے یونہی منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر حسن آرا جادوگرنی کے چہرے پر دو چار پھونکیں ماریں اور آئینہ اس کے چہرے کے آگے کر کے بولی- "لو خود ہی دیکھ لو کیسی شہزادیوں کی طرح شکل ہوگئی ہے تمھاری-"

جادوگرنی نے آئینے میں جھانکا اور پھر خوشی و مسرّت سے اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی- آئینے میں ایک بد صورت جادوگرنی کی بجاے ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی کی صورت نظر آ رہی تھی-

جادوگرنی بے حد خوش تھی- اس نے جلدی سے ثریا کو رخصت کردیا اور شہزادے عثمان کے کمرے کی طرف دوڑی وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ کس قدر حسین ہو گئی ہے- اسے کیا پتہ تحت کہ وہ پہلے ہی جیسی ہے- جب وہ شہزادہ عثمان کے کمرے میں پہنچی تو وہ کھڑے کھڑے ہی سو گیا تھا- جب وہ حسن آرا جادوگرنی کی کی کی آوازوں پر بھی نہیں اٹھا تو وہ وہاں سے چلی آئ- رات زیادہ ہو گئی تھی- وہ بھی اپنے بستر پر لیٹ گئی مگر مارے خوشی کے نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی- جب باوجود کوشش کے بھی وہ نہ سو سکی تو بستر سے اٹھ کر محل سے باہر نکل آئ تاکہ چاندنی رات میں جنگل کی سیر کرے-

ادھر شہزادی ثریا بھاگم بھاگ فرید کے پاس پہنچی جو ایک درخت کے نیچے بیٹھا اونگھ رہا تھا- اس نے فرید کو جلدی جلدی جادوگرنی سے ہونے والی ملاقات کا حال بتایا- فرید شہزادی ثریا کی ذہانت سے بے حد خوش ہوا جس نے ایک جھوٹی کہانی سنا کر اس چالاک جادوگرنی کو بڑی آسانی سے بے وقوف بنا دیا تھا-

شہزادی دو پتھر ڈھونڈ لائی تھی- اس کا ارادہ تھا کہ وہ ہار کے تمام موتیوں کو پتھروں کی مدد سے کچل دے گی- اس نے ہار کے تمام موتیوں کو علیحدہ کر لیا اور انھیں ایک ایک کر کے توڑنے لگی- فرید اسے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا- اچانک شہزادی ثریا فرید کی آواز سن کر چونک گئی- وہ شہزادی کو پیچھے کی طرف متوجہ کر رہا تھا- شہزادی نے گھوم کر دیکھا- چاند کی ہلکی روشنی میں ایک سایہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا- شہزادی ثریا پہلی ہی نظر میں تاڑ گئی کہ یہ وہ ہی جادوگرنی ہے جس نے اس کے بھائی کو پتھر کا بنا دیا ہے-

وہ فرید کو لے کر جھاڑیوں میں گھس گئی اور سرگوشی کے انداز میں فرید سے بولی- "یہ جادوگرنی رات کو جنگل میں کیا لینے آئ ہے؟"

"شائد اسے خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی ہوگی-" فرید نے ہلکے سے جواب دیا- شہزادی کچھ نہ بولی- تھوڑی دیر بعد جادوگرنی ان کے سامنے سے گزری- دونوں نے اپنے سانس تک روک لیے تھے تاکہ جادوگرنی ان کی موجودگی سے باخبر نہ ہو جائے- جب جادوگرنی ان سے کچھ دور پہنچ گئی تو شہزادی ثریا نے کہا- "یہ جانے کب تک جنگل میں چکراتی پھرے گی- ہم اس کے محل میں ہی چلتے ہیں- وہاں پر اطمینان سے تمام موتیوں کو توڑیں گے- کیونکہ ہمیں یہ تو پتہ ہی نہیں کہ اس کی جان کونسے موتی میں ہے-"

پھر وہ اور فرید تیزی سے جادوگرنی کے محل کی طرف چل دئیے- فرید شہزادی کو اس کمرے میں لایا جہاں پر شہزادہ موجود تھا- اپنے بھائی کو آدھا پتھر کا بنا دیکھ کر شہزادی ثریا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- وہ اس سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی- شہزادہ عثمان کی آنکھ کھل گئی- اس نے جو اپنی بہن کو وہاں پر دیکھا تو اسے بے حد حیرت ہوئی- شہزادی نے مختصراً اسے تمام بتایں- اس عرصے میں فرید دروازے میں کھڑا ہو گیا تھا تاکہ اگر حسن آرا جادوگرنی وہاں پر آ بھی جائے تو وہ جلدی سے اس کی اطلاع شہزادی ثریا کو دے دے-

شہزادی ثریا خاموش ہوئی ہی تھی کہ فرید جلدی سے اس کے پاس آ یا اور بولا- "شہزادی- آپ نے باتوں میں بہت سا وقت ضائع کر دیا ہے- وہ جادوگرنی محل میں داخل ہو چکی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ اب یہاں پر ہی آئے گی-"

یہ سن کر شہزادی کچھ پریشان سی ہوگئی- اس نے جلدی جلدی موتیوں کو دیوار پر مارنا شروع کر دیا- موتی دیوار سے ٹکراتے ہی ننھی منی کرچیوں میں تبدیل ہوجاتے- پھر شہزادی کے ہاتھ میں صرف ایک ہی موتی رہ گیا تھا جو یقیناً وہ ہی موتی تھا جس میں حسن آرا جادوگرنی کی جان بند تھی- ابھی شہزادی ثریا نے ہاتھ بلند کیا ہی تھا کہ جادوگرنی کمرے کے دروازے پر آن پہنچی- وہ شہزادی ثریا کو وہاں دیکھ کر بہت حیران ہو گئی تھی- اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ شہزادی ثریا نے اس آخری موتی کو بھی دیوار پر دے مارا- دیوار سے ٹکراتے ہی موتی سینکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا- اس کے ٹوٹتے ہی حسن آرا جادوگرنی کے منہ سے ایک نہایت ہی بھیانک چیخ نکلی اور وہ زمین پر گر کر اسی وقت مر گئی-

اس کے مرتے ہی فضا میں چیخوں اور کراہوں کی آوازیں گونجنے لگیں- دور کہیں زور سے بادل کڑ کڑ ا یا اور پھر لمحہ بھر میں وہ محل بھک ے اڑ گیا-

شہزادہ عثمان اور فرید اپنی اصلی حالت میں آ گئے تھے- شہزادی انھیں مسکراتے ہوۓ دیکھنے لگی- محل تو چونکہ غائب ہو گیا تھا اس لیے اب وہ لوگ جنگل میں کھڑے تھے- ان کے قریب ہی جادوگرنی کی لاش پڑی تھی-

شہزادہ عثمان بولا- "ثریا بہن- میں تو تمہیں نہایت ڈرپوک سمجھتا تھا مگر تم تو بہت باہمت نکلیں- صبح تو میں تمہیں اپنے ساتھ شکار پر نہیں لایا تھا، مگر اب تم جی بھر کر شکار کھیل سکتی ہو-"

"اور اس بات کا خیال رکھئے گا کہ اندھیرے میں شکار صرف بلی ہی کرتی ہے-" فرید ہنس کر بولا- اس کی اس بات پر شہزادہ عثمان اور شہزادی ثریا بھی ہنس پڑے-

شہزادی نے درخت سے اپنا گھوڑا کھولا اور وہ تینوں محل کی طرف چل دیے- محل پہنچے تو تمام لوگ شہزادہ عثمان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے- شہزادہ عثمان نے بادشاہ اور ملکہ کو تمام کہانی سنا دی- شہزادی ثریا اور فرید کو بہت شاباش ملی- بادشاہ نے فرید کو بہت سا انعام و اکرام دے کر رخصت کیا-

اس روز کے بعد سے شہزادہ عثمان کا دل شکار سے اچاٹ ہوگیا- وہ حکومت کے کاموں میں بادشاہ کا ہاتھ بٹانے لگا- کچھ عرصہ بعد ملکہ نے ایک خوبصورت شہزادی سے شہزادہ عثمان کی شادی کردی اور بادشاہ اسے تخت و تاج سونپ کر خود یاد الہی میں مصروف ہوگیا-

Browse More Moral Stories