Dada Abu - Article No. 2013

Dada Abu

دادا ابو - تحریر نمبر 2013

جب تم چھوٹے تھے،تب وہ تم کو باہر لے کر جاتے تھے،اب تمہاری باری ہے،تم بھی ان کو پارک لے جایا کرو

ہفتہ 10 جولائی 2021

مریم شہزاد
”اف فو،یہ دادا ابو بھی بس․․․․․“کاشان نے بیزاری سے کہا تو اس کے چچا زاد بھائی طلحہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
”کیا ہوا دادا ابو کو،ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟“اس نے پوچھا۔
”کچھ نہیں،بس ایسے ہی۔“کاشان نے منہ بنا کر بات ٹالی۔
”دادا تو بہت پیار کرتے ہیں اور پہلے تو مزے بھی بہت کرواتے تھے۔

”ہاں پہلے کبھی،جب ہم چھوٹے تھے،تب کی بات ہے یہ۔“
”اب کیا ہوا؟“
”کیا بتاؤں،چونکہ ہر وقت گھر پر ہوتے ہیں،اس لئے سب یہ ہی کہتے رہتے ہیں کہ شور نہ کرو،آہستہ بولو،ٹی وی کی آواز کم رکھو،باہر جا کر کھیلو،مزے دار چیز کھانے کو دل چاہے تو چھپ کر کھاؤ،ورنہ دادا ابو کا بھی دل چاہے گا اور ڈاکٹر نے اُن کو منع کیا ہے۔

(جاری ہے)

پہلے دادی بھی ہمارے ساتھ مل کر باتیں کرتی تھیں،کہانیاں سناتی تھیں،مزے مزے کی چیزیں بنا کر کھلاتی تھی۔ہم بھی ان سے خوب فرمائشیں کرتے تھے،مگر اب وہ بھی توجہ نہیں دیتیں،اب تو مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔“
”کتنی بُری بات ہے کاشان،جب وہ تمہارے لاڈ اُٹھاتے تھے تو تم کو اچھا لگتا تھا اور اب جب انھیں تمہاری ضرورت ہے تو تم ایسی باتیں کر رہے ہو۔
“طلحہ نے دکھ سے کہا۔
”میری ضرورت؟کیا مطلب ،میں کیا کر سکتا ہوں۔“اس نے حیرت سے کہا۔
”تم ہی تو سب کچھ کر سکتے ہو،تم ان کے سب سے بڑے پوتے ہو،دادا سب سے زیادہ پیار بھی تم سے ہی کرتے ہیں۔تم بھی اب ان کو وقت دیا کرو۔جب تم چھوٹے تھے،تب وہ تم کو باہر لے کر جاتے تھے،اب تمہاری باری ہے،تم بھی ان کو پارک لے جایا کرو،ان کے ساتھ مل کر بیٹھو اور اپنے بچپن کی باتیں انھیں یاد دلایا کرو۔

”ارے تم کو معلوم نہیں،وہ کتنے چڑچڑے ہو گئے ہیں اور ہر وقت غصہ کرتے ہیں،ان سے کون بات کرے۔“کاشان نے منہ بنایا۔
”بچپن میں جب تم ضد کرتے تھے یا بیمار ہوتے تھے تو وہ بھی تو تمہارا خیال کرتے تھے۔تم نے سنا نہیں امی کیا کہتی ہیں،بچہ،بوڑھا برابر ہوتے ہیں،ان کو بھی بچوں کی طرح توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔“
”تو کیا میں ان کو خوش کر سکتا ہوں؟“
”کیوں نہیں،کوشش تو کرو۔

اسکول سے آکر وہ دیر تک طلحہ کی باتوں پر غور کرتا رہا۔عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو دادا ابو کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ رک گیا۔ اس نے چپکے سے دیکھا تو وہ خاموش لیٹے چھت کو دیکھ رہے تھے۔
اس کے کانوں میں طلحہ کی آواز آئی:”تم کوشش تو کرو۔“
کاشان نے ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہو کر سلام کیا:”السلام علیکم،دادا ابو!“
انھوں نے سر گھما کر اس کو دیکھا:”وعلیکم السلام،کیسے فرصت مل گئی آپ کو آج دادا کو سلام کرنے کی۔
“انھوں نے خفگی سے کہا۔
”کیا کر رہے تھے دادا ابو!“
”وہ غصے سے بولے:”کچھ کر سکتا ہوں میں،تم دیکھ تو رہے ہو لیٹا ہوا ہوں بالکل اکیلا۔“
یہ کیا بات کی آپ نے،کیوں کچھ نہیں کر سکتے،سامنے والے پارک تک تو چل ہی سکتے ہیں۔“کاشان نے ایک کوشش اور کی۔
”تم ہی جاؤ اکیلے۔“
”کیوں اکیلے کیوں،آپ جو ہیں،دونوں چلتے ہیں۔
“کاشان کی بات سن کر دادا ابو نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔
”کیا کروں گا جا کر ،چلنا بھی مشکل ہے۔“وہ ڈر رہے تھے کہ بہت دن سے باہر نہیں نکلے تھے،مگر کاشان کے کہنے سے د ل بھی چاہنے لگا تھا۔
”آپ چلیں تو۔“اس نے پیار سے کہا تو دادا ابو مسکرانے لگے۔
”اچھا،تم ضد کرتے ہو تو چلا چلتا ہوں،آج بھی تم بچوں کی طرح ضد کرتے ہو۔

وہ دونوں کمرے سے باہر نکلے تو سب حیران ہو گئے۔
”کہاں لے جا رہے ہو دادا ابو کو،ان کی طبیعت خراب ہے۔“امی نے کہا۔
”نہیں امی،دادا ابو بالکل ٹھیک ہیں اور میں دادا ابو کو نہیں،بلکہ یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں پارک،میں چھوٹا اور یہ بڑے ہیں۔“اس نے سمجھ داری سے کہا تو امی بھی اس کی بات سمجھ گئیں کہ دادا خود کو بہت زیادہ بیمار سمجھ کر کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے۔
اب کاشان اس قابل تھا کہ ان کو سنبھال سکے۔دادی نے بھی گھبرا کر کچھ کہنا چاہا تو دادا خود ہی بول اُٹھے:”خود ہی تو کہتی رہتی ہو کہ اُٹھ کر باہر جاؤ،اب جا رہا ہوں تو سب کو پریشانی ہے۔“تو وہ بھی چپ ہو گئیں۔
وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پارک پہنچے تو وہاں ہریالی دیکھ کر دادا ابو کی طبیعت خوش ہو گئی۔سامنے ہی دادا ابو کے ایک دوست بینچ پر بیٹھے نظر آگئے تو وہ ان کے ساتھ ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے۔
کاشان نے کچھ دیر چہل قدمی کی پھر وہیں گھاس پر بیٹھ گیا۔اس کو بوریت محسوس ہو رہی تھی،لیکن اس نے سوچا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو میں کھیلتا رہتا تھا اور دادا ابو میرے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے اور روز ہی ایسا ہوتا تھا اور میرا تو آج پہلا دن ہے۔مجھے بھی خوشی خوشی انتظار کرنا چاہیے۔دادا اور ان کے دوست باتیں کرتے رہے کہ مغرب کی اذان ہو گئی تو کاشان ان کے پاس آکر بولا:اب چلیں۔

”ہاں ہاں چلو،مسجد میں نماز پڑھ کر چلتے ہیں۔“وہ اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کر رہے تھے۔
”جیسے آپ کی خوشی۔“
دونوں نماز پڑھ کر گھر آئے تو دادی بہت پریشان تھیں کہ آج تو بہت ہی غصہ کریں گے کہ اتنا تھکا دیا،مگر ان کو ہنستے مسکراتے دیکھ کر سب ہی خوش ہو گئے۔آج تو انھوں نے کمرے کے بجائے سب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی،پھر رات کا کھانا بھی ساتھ ہی کھایا۔
اس کے بعد کاشان ان کو کمرے میں لے آیا،کیونکہ وہ تھکن محسوس کرنے لگے تھے۔دادا ابو لیٹ گئے تو کاشان نے ان کے پیر دباتے ہوئے کہا:”آپ خود کو بیمار نہ سمجھیں۔میں روزانہ آپ کو سیر کرانے باہر لے جاؤں گا۔ان شاء اللہ آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔“
کاشان آج بہت خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس کی وجہ سے سب کو اطمینان حاصل ہوا ہے۔اس نے فون کرکے طلحہ کو بھی بتایا تو اس نے کاشان کی مزید حوصلہ افزائی کی۔

اب کاشان دادا کو پارک لے جانے کے ساتھ ساتھ ان کو پورا پورا وقت بھی دیتا ہے۔کبھی ان کی پسند کی کتابیں پڑھ کر سناتا ہے تو کبھی ان سے کتابوں کے بارے میں بحث مباحثہ کرتا ہے۔کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کو ملا کر ان کے ساتھ لوڈو یا کیرم کھیلتا ہے۔سب کاشان سے بہت خوش ہیں اور دعائیں دیتے ہیں کہ وہ دادا کا اتنا خیال رکھتا ہے۔وہ خود بھی جان چکا تھا کہ بچے اور بوڑھے برابر ہوتے ہیں۔بزرگوں کو بھی اتنی ہی توجہ اور پیار دینا چاہیے،جتنا وہ اپنے بچوں کو دے چکے ہوتے ہیں۔کیوں ٹھیک ہے ناں۔

Browse More Moral Stories