Doghli Chamgadar - Article No. 2247

Doghli Chamgadar

دوغلی چمگادڑ - تحریر نمبر 2247

وہ جب دیکھتی کہ پرندے جیت رہے ہیں تو وہ ان کی حمایت کا اعلان کر دیتی اور جب دیکھتی کہ جانوروں کا پلڑا بھاری ہے تو جانوروں میں شامل ہو جاتی اور جانور ہونے کا دعویٰ کرتی۔

پیر 2 مئی 2022

ایک جنگل میں بہت سارے جانور رہا کرتے تھے لیکن وہ سب آپس میں لڑتے رہتے۔ان جانوروں میں دو گروہ بن گئے تھے۔ایک چوپایوں کا اور دوسرا پرندوں کا۔ان دونوں گروہوں نے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک بادشاہ چن لینا چاہیے جو ہمارے جھگڑوں کا فیصلہ کر سکے۔لیکن اس بات پر بھی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ بادشاہ کا انتخاب کیسے کیا جائے․․․․؟پرندوں کا اصرار تھا کہ بادشاہ کوئی پرندہ ہونا چاہیے،جبکہ جانوروں کا کہنا تھا کہ بادشاہ جانوروں میں سے ہونا چاہیے۔

شیر نے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر دیا اور پرندوں کی طرف سے عقاب نے اپنی خدمات پیش کیں لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔چوپائے اپنے ساتھیوں کی حمایت اور تعریف میں لگے ہوئے تھے تو پرندے اپنی اہمیت جتا رہے تھے۔

(جاری ہے)


اس بحث کے دوران چمگادڑ کا رویہ بڑا عجیب و غریب تھا۔وہ جب دیکھتی کہ پرندے جیت رہے ہیں تو وہ ان کی حمایت کا اعلان کر دیتی اور جب دیکھتی کہ جانوروں کا پلڑا بھاری ہے تو جانوروں میں شامل ہو جاتی اور جانور ہونے کا دعویٰ کرتی۔


یہ سلسلہ چلتا ہی رہا اور آخر جانور پرندوں پر بازی لے گئے۔شیر کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا۔اب تمام جھگڑوں کا فیصلہ شیر ہی کرتا تھا۔شیر کے اچھے رویے کی وجہ سے جانور تو جانور،پرندے بھی مطمئن ہو گئے تھے مگر ان دونوں گروہوں کو چمگادڑ کے دوغلے رویے پر بے حد غصہ آتا تھا۔
شیر کے جیتنے کے بعد جب چمگادڑ اس کو مبارکباد دینے پہنچی تو سب نے اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا کہ تم تو پرندوں میں شامل ہو کیونکہ کسی بھی چوپائے کے پَر نہیں ہوتے۔

چمگادڑ روتی پیٹتی پرندوں کے پاس پہنچی اور کہا کہ چوپایوں نے مجھے مار بھگایا ہے کیونکہ میں جانور نہیں ہوں لیکن پرندوں نے اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ تم چوپایوں میں شامل ہو کیونکہ پرندے تو انڈے دیتے ہیں جبکہ تم اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہو۔
یہ کہہ کر سب نے اسے وہاں سے مار بھگایا۔چمگادڑ نے بہت کہا کہ میں پرندوں میں شامل ہوں مگر کسی پرندے نے اسے اپنے ساتھ شامل نہ کیا۔

اس کے بعد سے چمگادڑ کی زندگی تنہا گزرنے لگی۔وہ اب بھی تنہا ہے اور اپنی بری عادت کی سزا بھگت رہی ہے۔
جب کبھی وہ خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے تو سزا کے طور پر درخت سے اُلٹی لٹک جاتی ہے اور روتی ہے اور جب سب پرندے سو جاتے ہیں تو رات کو سناٹے میں باہر آ جاتی ہے کہ کہیں کوئی پرندہ دیکھ نہ لے۔دوغلے رویے نے اسے منہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے۔

Browse More Moral Stories