Dosra Saya - Article No. 2399

Dosra Saya

دوسرا سایہ - تحریر نمبر 2399

اگر تم میرا سایہ جوں کا توں بہترین حالت میں مجھے لوٹاؤ گے تو میں تمہیں ایک جادو کا منتر دوں گی،جو صرف تمہارا ہو گا

منگل 22 نومبر 2022

احمد عدنان طارق
کہیں دور ایک لڑکا موسیٰ رہتا تھا۔وہ لڑکا ہمیشہ اپنے سائے کا بہت خیال کیا کرتا تھا۔موسیٰ ویسے بھی بہت ذمے دار لڑکا تھا جو اپنے جوتوں اور کپڑوں کے بٹنوں تک کا بہت خیال کرتا تھا،لیکن سب سے زیادہ خیال وہ اپنے سائے کا رکھتا تھا،کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ اُس کا صرف ایک ہی سایہ ہے اور وہی ساری زندگی اس کے ساتھ رہے گا۔
وہ ہمیشہ چلتے وقت خیال رکھتا کہ اس کا سایہ زیادہ مٹی میں نہ چلے اور اگر وہ کسی ایسی جگہ سے گزرتا جہاں زیادہ مٹی ہوتی تو وہ وہاں سے تیزی سے گزر جاتا۔
موسیٰ اپنے سائے کا بہت خیال کرتا،پھر بھی ایک جادوگرنی کی نظروں میں آ گیا۔ایک دن موسیٰ جب اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا تو ایک جادوگرنی نے اسے راستے میں روک لیا۔

(جاری ہے)

وہ بولی:”میں تمہیں ہمیشہ سائے کا خیال رکھتے دیکھتی ہوں اور یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ تم اپنے سائے کا بہت خیال کرتے ہو۔


موسیٰ نے کہا:”میں اس کا خیال اس لئے رکھتا ہوں،کیونکہ یہ ایک ہی ہے اور پھر اسے ساری زندگی میرے ساتھ رہنا ہے۔“
جادوگرنی موسیٰ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی:”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔تم ہی وہ لڑکے ہو،جس کی مجھے تلاش تھی۔میں چاہتی ہوں کہ کوئی میرے سائے کی بھی حفاظت کرے،کیونکہ میں چھٹی پر جا رہی ہوں۔میں ہر گز اپنے بوڑھے،ہڈیوں کے ڈھانچے جیسے سائے کو ساتھ لے کر جانا نہیں چاہتی۔
تم جانتے ہو،کئی دفعہ یہ سائے بڑی مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں۔“
موسیٰ نے حیرانی سے سوچتے ہوئے جواب دیا:”لیکن میرے سائے نے تو کبھی مجھے مصیبت میں نہیں ڈالا۔“
جادوگرنی بولی:”ہو سکتا ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو،لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دو ہفتوں کے لئے اپنے سائے سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔میں اسے کسی ایرے غیرے کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتی۔
میری خواہش ہے کہ میں اسے تمہارے حوالے کرکے جاؤں۔“
موسیٰ ڈر رہا تھا،اس لئے اس نے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ کسی جادوگرنی سے بحث کرے۔وہ بولا:”ٹھیک ہے میں رکھ لیتا ہوں،لیکن مہربانی فرما کر جلدی واپس آجائیے گا۔“
جادوگرنی اپنی طرف سے نہایت مہذب انداز میں مسکرائی،حالانکہ مسکراتے وقت وہ خاصی خوف ناک لگ رہی تھی۔پھر اس نے وعدہ کرتے ہوئے موسیٰ سے کہا:”اگر تم میرا سایہ جوں کا توں بہترین حالت میں مجھے لوٹاؤ گے تو میں تمہیں ایک جادو کا منتر دوں گی،جو صرف تمہارا ہو گا۔
اس کا فیصلہ میں خود کروں گی کہ تمہارے لئے کون سا منتر مناسب رہے گا۔“
پھر اس نے اپنے سائے کو موسیٰ کے سائے کے ساتھ باندھ دیا اور خود جادو کی جھاڑو پر سوار ہو کر فضا میں بلند ہو گئی۔اس کے اوپر سورج کی روشنی تھی،لیکن اس کا سایہ نہیں تھا۔البتہ موسیٰ کے اب دو سائے تھے۔دوسرا جادوگرنی والا سایہ غصے میں تھا۔یہ شاید دنیا کا سب سے بدتہذیب سایہ تھا۔
ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ سایہ وہی حرکتیں کرتا ہے،جو اس کا مالک کرتا ہے،لیکن یہ اُصول جادوگرنی کے سائے پر لاگو نہیں ہوتا تھا۔
جب موسیٰ پھلوں کی دکان پر سیب خریدنے گیا تو جادوگرنی کا سایہ دوسرے پھلوں کے سایوں پر منڈلانے لگا۔اس نے کیلوں،مالٹوں اور ناشپاتیوں کے سایوں کو گڈمڈ کر دیا۔پھل فروش چلا کر بولا:”اس سائے کو یہاں سے دور پھینک کر آؤ۔
میں مالٹوں کو کیسے بیچوں گا اگر ان کا سایہ ہی نہیں ہو گا یا وہ کیلے کون خریدے گا جن کا سایہ ناشپاتیوں جیسا ہو گا۔“
موسیٰ جادوگرنی کے سائے کو اتنی آزادی دینا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی من مانی کرتا پھرے۔وہ بے چارہ سیب خریدے بغیر ہی وہاں سے واپس آ گیا۔پھر شام کو گھر میں چائے پیتے ہوئے جادوگرنی کا سایہ دیوار پر چڑھ کر پھیل گیا۔
دیوار کے ساتھ لگے گھڑیال پر سایہ پڑا تو وہ بند ہو گیا۔اسے دیکھ کر میاں مٹھو کو دورہ پڑ گیا۔پھر اس نے کتے کے سائے کی دُم کو مروڑا تو موسیٰ کی امی نے زور سے کہا:”مجھے اس منحوس سائے کو دیوار پر ٹہلتا دیکھ کر چائے پینے میں ذرا مزہ نہیں آ رہا ہے۔موسیٰ!اسے گھر سے باہر ہی رکھا کرو۔“
موسیٰ کو جادوگرنی سے کیے ہوئے وعدے کا خیال تھا۔
اس نے باورچی خانے میں چائے پینی شروع کر دی۔وہ اب اس سائے کی حرکتوں کو بخوبی جانتا تھا،اس لئے وہ سائے کو شرارتوں کا موقع ہی نہیں دیتا تھا،لیکن اس طرح کی رکاوٹ سے سایہ بہت ناراض ہو گیا۔تبھی موسیٰ کی احتیاط کے باوجود سائے نے شرارتوں کے نئے طریقے سوچ لیے۔اس نے اب موسیٰ کے اپنے سائے کو چٹکیوں سے کاٹنا اور ڈرانا شروع کر دیا۔ایسی حرکت کو دیکھنا بھی موسیٰ کے لئے بڑی تکلیف کا عمل تھا۔
موسیٰ اپنے سائے کے ساتھ ہمیشہ مہربانی سے پیش آتا تھا۔لہٰذا موسیٰ کے سائے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس عفریت کا کس طرح مقابلہ کرے۔
ایک دن موسیٰ اسکول سے گھر جا رہا تھا۔دھوپ نکلی ہوئی تھی۔دونوں سائے اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔موسیٰ نے دیکھا کہ جادوگرنی کے سائے نے موسیٰ کے سائے کو بھنبھوڑ دیا۔موسیٰ کے سائے نے درد کے مارے چیخ ماری اور وہاں سے بے اختیار بھاگ نکلا۔
موسیٰ اس کے پیچھے دوڑا،لیکن وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
جادوگرنی کے سائے کی بھیانک ہنسی کی آواز آ رہی تھی۔اب پھر موسیٰ کے پاس ایک ہی سایہ رہ گیا تھا لیکن یہ اس کا اپنا سایہ نہیں تھا۔اس کا اصل سایہ اس کا ساتھ چھوڑ کر جا چکا تھا۔اب تو جادوگرنی کا سایہ ہی باقی بچا تھا۔موسیٰ اب اُداس اور تنہا تھا۔اس نے کوشش کی کہ وہ جادوگرنی کے سائے سے دوستی کرنے اور اس کا خیال رکھے،لیکن یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی بچہ کسی بھیڑیے کو پالتو بنا کر رکھنا چاہے۔

آخر جادوگرنی واپس آ ہی گئی۔اس کا رقعہ آیا کہ وہ آدھی رات کو موسیٰ سے ملنا چاہتی ہے،لہٰذا موسیٰ اس کا سایہ بھی ساتھ لیتا آئے۔وہ چودھویں کی رات تھی اور چاند نکلا ہوا تھا،ورنہ سائے کو ڈھونڈنا آسان نہ تھا وہ ہر وقت اندھیرے میں چھپ کر بیٹھا رہتا تھا۔پھر جادوگرنی نے اپنے سائے کو واپس لے لیا پھر جادوگرنی بولی:”یہ لو یہ ہے تمہارا جادو کا منتر۔

اس نے ایک دھاری دار ٹافی موسیٰ کے ہاتھ میں تھما دی جو چمگادڑ کے پَر میں لپٹی ہوئی تھی۔وہ بولی:”جو لڑکا اس ٹافی کو کھا لے گا وہ جب چاہے کسی بھی طرح کے اونٹ کا روپ دھار سکتا ہے۔وہ دوڑ لگانے والا اونٹ بھی ہو سکتا ہے اور گھریلو بھی۔“
یہ منتر موسیٰ کے کسی کام کا نہیں۔وہ تو صرف یہی چاہتا تھا کہ کس طرح اس کا سایہ واپس آ جائے۔
اس نے جادوگرنی سے اس کے سائے کی شکایت بھی کی،لیکن وہ جادوگرنیوں کی طرح ناک منہ چڑھا کر بولی:”میاں!دنیا میں کوئی چیز آسانی سے نہیں ملتی۔میں نے تمہیں تمہارا انعام دے دیا ہے۔اب بھاگو اور گھر جاؤ۔“
موسیٰ کو مجبوراً اس کی بات ماننی پڑی اور وہ سر جھکائے سڑک پر گھر کی طرف چل پڑا۔جب وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو وہاں کسی چیز نے حرکت کی۔وہ اس کا اپنا سایہ تھا جو شرمندہ سا ہو کر دوسرے سایوں میں چھپا بیٹھا تھا۔وہ موسیٰ کی طرف آیا اور پھر اس کے پیروں میں لپٹ گیا۔وہ اتنا خوش تھا کہ بے اختیار چاند کی چاندنی میں ناچنے لگا۔اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھ اس کے قدموں سے لپٹا اس کا سایہ بھی خوشی سے ناچ رہا تھا۔

Browse More Moral Stories