Hidayat - Article No. 2055

Hidayat

ہدایت - تحریر نمبر 2055

اس وقت اس بھائی کی والدہ موجود نہیں ہے۔مگر ان کی دی ہوئی تعلیم زندگی بھر ان کے ساتھ رہے گی

ہفتہ 4 ستمبر 2021

بلقیس ریاض
ایک ریستوران میں ایک ایسے عزیز بھائی سے ملاقات ہوئی جو کئی سال سکاٹ لینڈ رہنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آئے تھے۔والدہ ان کی سکاٹ لینڈ کی تھیں اور والد پاکستانی تھے۔شادی کے بعد ماں مسلمان ہو چکی تھیں اور انہوں نے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کر لیا تھا۔ریستوران میں بیٹھے ہوئے میرے بھائی جن کا نام شہاب تھا وہ بتا رہے تھے کہ جب وہ چھوٹے سے تھے تو جمعہ کی نماز سے پہلے میری والدہ میرا لباس کمرے میں لاتے ہوئے کہتیں۔

”شہاب بیٹا ان کو غسل کرکے پہن لو۔میں چھوٹی بہن کو تیار کر رہی ہوں تاکہ تمہارے والد کے ساتھ ہم لوگ بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے جا سکیں۔“
میں اکثر کہتا۔”ماما اس وقت میرا موڈ نہیں ہے پلیز مجھے مت لے کر جائیں“۔

(جاری ہے)


”بیٹا تم مسلمان ہو کر اس طرح کی باتیں کرتے ہو‘نماز پڑھو گے تو دیکھنا اللہ کس قدر خوش ہو گا“۔


”کیا چاکلیٹ کھانے کیلئے دے گا“۔
”بہت کچھ دے گا․․․․تم ان نعمتوں کا تصور بھی نہیں کر رہے جو اس نے تمہیں دینی ہیں“۔
”ارے چھوڑیں ماما ان نعمتوں کو پہلے مجھے بتائیں اللہ چاکلیٹ دے گا کہ نہیں“۔
ماما مسکرائیں اور کہتیں”اپنے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر دیکھو شاید اللہ میاں نے چاکلیٹ یہاں رکھ دی ہو“۔
میں جھٹ سے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالتا تو وہاں سے پیکٹ مل جاتا اور مسکراتا ہوا اپنا لباس پکڑ کر غسل خانے کی طرف بھاگتا اور جاتے جاتے یہ کہتا”ماما اللہ میاں کتنا اچھا ہے‘اس نے فوراً چاکلیٹ آسمان سے پھینک دی ہے۔“میرا ننھا سا ذہن اس وقت یہی محسوس کرتا کہ اللہ نے سچ مچ چاکلیٹ اوپر سے بھیجی ہے۔
میں تیار ہو کر خوشی خوشی اپنے والدین کے ساتھ مسجد میں چلا جاتا۔
وہاں پر کئی پاکستانی اپنے خاندانوں کے ساتھ نظر آتے۔مگر وہاں کی عورتیں خاص کرکے میری ماں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر حیرت زدہ ہوتیں۔ان سے کبھی کبھار سوال بھی کرتیں۔
”کیا واقعی آپ مسلمان ہو چکی ہیں“۔میری ماں اپنے لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے یہی کہتیں۔”میں مسلمان ہوں۔آپ کو کوئی شک ہے؟“
تو پوچھنے والی خواتین کھسیانی سی ہو جاتیں۔
میری ماں ان کو لاجواب پا کر بوتلیں۔
”میں سچی اور پکی مسلمان ہوں‘بلکہ میں اپنے بچوں کو بھی پکا مسلمان بنا رہی ہوں۔صرف کلمہ پڑھ کر مسلمان تھوڑی ہوتا ہے بلکہ تمام اسلامی احکامات پر پورا اُترنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔سو میں اپنے خاندان کے ساتھ پورا کر رہی ہوں۔ماں کی باتیں اور طرز زندگی نے ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیا ہے۔جب بھی رمضان شریف آتا ہے مجھے اپنی والدہ بہت یاد آتی ہیں‘گو وہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ہمیں روزہ رکھنے کی اتنی عادت ڈال چکی ہیں کہ بیماری کے دوران بھی ایک روزہ نہیں چھوڑتا۔
سچ جانیں اور انگریز عورتوں کی طرح اگر میری ماں بھی چاہتی تو اس طرح کی تربیت نہ کرتی۔بعض انگریز عورتیں مسلمان تو ہو جاتی ہیں مگر اندر سے وہ مسیحی ہی رہتی ہیں آج ہم جو کچھ بھی ہیں خدا کے بعد اپنی ماں کی بدولت صحیح مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔“
شہاب بھائی دھیرے دھیرے سوپ پیتے ہوئے اپنے بارے میں سب کچھ بتا رہے تھے۔میں سوچ رہی تھی کہ ہم لوگ تو مسلمان ہونے کا صرف دعویٰ ہی کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہم لوگ منافق ہیں۔کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ہم سے تو یہ قوم ہی اچھی ہے‘جو روزے بھی دل کے ساتھ رکھتی ہیں اور اس پر پورا اُترتی ہے۔اس وقت اس بھائی کی والدہ موجود نہیں ہے۔مگر ان کی دی ہوئی تعلیم زندگی بھر ان کے ساتھ رہے گی۔

Browse More Moral Stories