Kachi Basti - Article No. 1544

Kachi Basti

کچی بستی - تحریر نمبر 1544

ذاکر صاحب نے آنے والے کل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔جو کمایا،خرچ کر دیا۔بیگم اور بچے بھی فضول خرچی کے عادی تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔

منگل 15 اکتوبر 2019

مسز سلمیٰ عقیل شاہ
ذاکر صاحب نے آنے والے کل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔جو کمایا،خرچ کر دیا۔بیگم اور بچے بھی فضول خرچی کے عادی تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔کچھ دن پہلے ذاکر صاحب کی کمپنی کا مالک جعل سازی کے جرم میں پکڑا گیا۔کمپنی بند ہو گئی اور ملازمین بے روزگار ہو گئے۔
ذاکر صاحب کے خاندان پر بھی بُرا وقت آگیا۔

ذاکر صاحب کو اب اپنی غلطیوں کا احساس ہورہاتھا۔ بہت بھاگ دوڑ کے بعد ایک کچی بستی میں ایک چھوٹا سا مکان سستے کرائے پر مل گیا۔اس کچی بستی کے لوگ بہت ملنسار تھے۔ایک دوسرے کی تکلیفوں اور مصیبتوں میں کام آتے تھے،لیکن ذاکر صاحب کے بیوی بچے یہاں ذرا بھی خوش نہیں تھے۔وہ یہاں کے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے۔

(جاری ہے)

خاص طور پر اپنے پڑوسی رمضان سے ،کیوں کہ انھوں نے گھرمیں گائے اور مرغیاں پالی ہوئی تھیں۔

جانوروں کے شور اور چاروں طرف پھیلی بُو سے وہ پریشان تھے۔
ذاکر صاحب تو کسی حد تک گھل مل گئے تھے،لیکن بیگم بچوں کا مزاج ذرا بھی نہ بدلا۔ان کے رویے کی وجہ سے محلے کے تمام لوگ ان سے لاتعلق ہوتے چلے گئے۔ذاکر صاحب کو ایک معمولی نوکری مل گئی تھی۔
ایک رات اچانک زوروں کی بارش شروع ہوئی ۔بارش اس قدر زوردار ہورہی تھی کہ بستی کے سامنے سے بہتا ہوا نالہ تیزی سے بھرنے لگا۔
سیلاب جیسی کیفیت ہو گئی۔ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی،جس کی وجہ سے بعض گھروں کی چھتیں بھی اُڑگئی تھیں۔بستی والے اپنا ضروری سامان لے کر بستی سے باہر نکلنے لگے تھے۔ذاکر صاحب کے گھر والوں کو شاید ابھی تک کچھ خبر نہیں تھی۔
رمضان اپنے بیوی بچوں اور جانوروں کو لے کر اونچائی پر بنے ریلوے اسٹیشن کی طرف نکلا۔یہاں پانی
آنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
بستی کے تمام لوگ جمع ہو چکے تھے۔بڑے نالے کے بھرنے کی وجہ سے پوری بستی سیلاب کا منظر پیش کررہی تھی۔رمضان اور بستی کے دوسرے لوگ بہت پریشان تھے کہ ابھی تک ذاکر صاحب اور ان کے گھر والے نہیں پہنچے۔رمضان سے آخر رہا نہ گیا۔وہ فوراً دو تین جوانوں کو لے کر دوبارہ بستی میں پہنچا ،تب تک پانی اور بلند ہوگیا۔رمضان بڑی مشکل سے ذاکر صاحب کے گھر تک پہنچا اور چیخ کر کہا:”ذاکر بھائی!دروازہ کھولو،پوری بستی خالی ہو چکی ہے۔
سب محفوظ مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔آپ لوگ بھی چلیں ،پانی تیزی سے بلند ہورہا ہے۔“
ذاکر صاحب اور ان کی بیگم کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔انھوں نے اپنی چھوٹی بیٹی کو مچان پر لٹادیا تھا۔زندگی میں پہلی بار اس قسم کے حالات کا سامنا ہوا تھا۔رمضان اور ان کے ساتھی بچوں کو لے کر باہرنکلے۔
رمضان ،ذاکر صاحب کے خاندان کو لے کر ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم میں پہنچے،جہاں پہلے ہی بستی کے تمام لوگ جمع تھے۔
ان کو دیکھ کر تمام لوگوں نے خدا کا شکر اداکیا۔بیگم ذاکر کا تو رورو کر بُرا حال ہورہا تھا۔بچے بھی بہت خوف زدہ تھے۔
بستی والوں نے انھیں حوصلہ دیا۔کپڑے اور اپنا کھانے پینے کا سامان بھی دیا۔بیگم ذاکر شرمندہ ہورہی تھیں،کیوں کہ وہ ہمیشہ بستی والوں سے دوررہی تھیں۔یکا یک انھیں اپنی چھوٹی بیٹی کا خیال آیا،جو نظر نہیں آرہی تھی۔ذاکر صاحب بھی پریشان ہوئے۔
انھیں بھی گھبراہٹ میں اپنی بچی کا خیال ہی نہیں رہا۔شاید وہ مچان پر سو گئی تھی۔
بستی کے تمام لوگ اس بچی کے لیے پریشان تھے۔رمضان نے سب کو حوصلہ دیا اور کہا:”میں بستی میں جاکر دیکھتا ہوں۔“
ذاکر صاحب نے بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا تو رمضان نے منع کر دیا اور کہا:”ذاکر بھائی!پانی کافی بلند
ہے۔خطرہ ہوا میں تو اپنی بھینس پر بیٹھ کر جاؤں گا۔
بس آپ لوگ دعا کریں۔“
رمضان وہاں پہنچا تو بچی مچان پر بے خبر سورہی تھی۔اس نے فوراً بچی کو اُٹھالیا۔رمضان بچی کو لے کر پلیٹ فارم میں پہنچا تو ذاکر صاحب دوڑتے ہوئے رمضان سے اپنی بچی لی اور رمضان کو سینے سے لگالیا اور تشکر اور ندامت کے احساس سے اس کی آنکھیں بھیگ گئی۔بچی کو دیکھ کر بیگم ذاکر کی حالت بھی سنبھلی اور وہ ہاتھ اُٹھا کر رمضان کو دعائیں دینے لگیں۔

بیگم ذاکر نے بستی والوں سے اپنے رویے کی معافی مانگ لی۔پانی اُترا تو بستی پھر سے آباد ہو گئی۔اب بیگم ذاکر عورتوں میں اور بچے بچوں میں گھل مل گئے۔ذاکر صاحب کو ایک اچھی ملازمت مل گئی۔انھوں نے یہاں سے کسی اور علاقے میں منتقل ہونے کے لیے بیگم سے مشورہ کیا تو بیگم اور بچوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ان کی بیگم نے کہا:”بستی والوں نے جس قدر پیار دیا ہے ،وہ کسی اور علاقے میں نہیں مل سکتا۔“
یہ سن کر ذاکر صاحب نے اطمینان کا سانس لیا اور خوش ہو گئے۔

Browse More Moral Stories