Kar Bhala Ho Bhala - Article No. 858

Kar Bhala Ho Bhala

کر بھلاہو بھلا - تحریر نمبر 858

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نر مر چکا تھا۔ وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاوٴ گی۔

جمعرات 5 نومبر 2015

حماد سلطان :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نر مر چکا تھا۔ وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاوٴ گی۔ اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے پاس ایک انڈا تھا۔ اسے ڈر لگا کہ اگر میں مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس کے خول سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا۔
لہذا وہ اپنے سب دوستوں کے پاس گئی جو جنگل میں رہتے تھے۔ اس نے اپنے دوستوں کو اپنی ساری کہانی سنائی لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بیچاری بطخ نے ان کی کافی منتیں کیں کہ خدا کے لیے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنا سایہ دینا لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی۔

(جاری ہے)

بیچاری بطخ بھی کیا کرتی۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاوٴں ، وہ ضرور میری مدد کرے گا لہذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا۔

مرغ بھائی ! آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو پلیز آپ ہی میرے بچے کو اپنا سایہ دینا۔ مرغا بولا ! میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گی لہذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لہذا تم مجھے معاف کر دینا۔ بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔
اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت اور بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ اس کی موت ہو گئی۔ جب مرغی کے بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا۔ مرغ تو سب جا ن گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی : میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا۔
مرغ نے اسے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا۔ مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ بطخ کے بچے سے کسی کو بات نہیں کرنی ہے۔ سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ جو خود کھاتے تھے۔ اپنے ساتھ اس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے تھے۔ مرغی کو بطخ کے بطے سے سخت نفرت تھی ، وہ اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔
ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے۔ ہم سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔ اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی۔ وہ لوگ سیر کو نکلے۔ وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔ یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہذا اس نے فوراً دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور اس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔ مرغی نے جب یہ دیکھا تو اسے اپنے کئے پر کافی شرمندہ ہوئی اور اس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ دیکھا بچو! کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کو بچایا اور کیسے اس کا بھلا ہوا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔

Browse More Moral Stories