Ghulam Bana Badshah - Article No. 2070

Ghulam Bana Badshah

غلام بنا بادشاہ - تحریر نمبر 2070

اگر آپ مجھے خوشی سے اس ملک کا بادشاہ تسلیم کر لیں تو میں آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے تیار ہوں

جمعرات 23 ستمبر 2021

ریاض احمد جسٹس
یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگ انسانوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔انسانوں کو منڈیوں سے خرید کر غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔طاقتور غلاموں سے سخت محنت مزدوری کے کام کروائے جاتے تھے۔جب یہ غلام ذرا کمزور اور بوڑھے ہوتے ہوئے نظر آتے تو ان کے بدلے میں غلاموں کا تبادلہ منڈیوں میں کیا جاتا تھا۔ملک کناں میں ایک ایسا ہی نیک دل انسان عبداللہ تاجر رہتا تھا جو کہ انسانوں کا ہی بیوپار کیا کرتا تھا۔
ایک دن یہ تاجر اپنے چند کمزور غلاموں کو انسانوں کی منڈی میں فروخت کرنے لے گیا۔جب یہ تاجر منڈی میں پہنچا تو اس نے ایک بڑے ہجوم میں دیکھا کہ ایک شخص غلام کو اونچی جگہ بیٹھا کر اس کی بولی لے رہا تھا۔اس تاجر نے سوچا کیوں نہ میں بھی اس غلام کو خریدنے کی بولی دوں۔

(جاری ہے)

جبکہ اس تاجر کے پاس دس غلام اور چار گھوڑے تھے۔ایک غلام خریدنے کے لئے یہ رقم بہت زیادہ تھی۔


اس تاجر نے جب اپنے دس غلام اور چار گھوڑوں کو فروخت کر دیا تو اس نے بھی بولی میں حصہ لیا۔اس غلام کو خریدنے کے لئے تاجر لوگ بہت دور دور سے آئے ہوئے تھے۔وہ غلام جس بڑے تاجر کے پاس تھا وہ اس غلام کی کئی کئی خوبیاں بیان کر رہا تھا ہر خوبی کے بدلے میں رقم بڑھا کر بتاتا رہا۔بولی کئی دنوں تک لگتی رہی مگر وہ تاجر ہر روز غلام کی رقم بڑھا دیتا۔
اس تاجر نے جب غلام کی خوبیاں پوچھیں تو بڑے تاجر نے کہا یہ غلام کوئی عام غلام نہیں ہے۔اس غلام پر میں نے بہت رقم خرچ کی ہے میں نے جب یہ غلام خریدا تھا اس وقت یہ دس برس کی عمر کا بچہ تھا۔میں نے اس غلام کو پورے پندرہ سال پڑھایا،لکھایا اور اس کی فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی ملکوں کی بولیاں بھی سکھائی ہیں۔اس تاجر نے اس غلام کی جب خوبیاں سنی تو اس نے اپنے دل میں عہد کر لیا کہ وہ اس غلام کو ضرور خریدے گا چاہے اسے اس غلام کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔

آخرکار اس تاجر نے کئی دنوں کے بعد اپنے ساٹھ غلاموں کے بدلے میں ایک مہنگا ترین غلام خرید لیا اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے آیا اس غلام کو تاجر نے اپنے دوسرے غلاموں سے ملوایا جو تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔آس پاس کے اور دور دراز کے بستی والوں نے جب یہ خبر سنی کہ عبداللہ تاجر نے ساٹھ غلاموں کے بدلے میں ایک غلام کو خریدا ہے۔کئی دنوں تک اس غلام کو لوگ دیکھنے کے لئے دور دور سے آتے رہے۔
تاجر نے اس قیمتی غلام کا نام آزاد رکھ دیا اس غلام نے کہا میرے آقا اگر آپ مجھ پر بھروسہ کریں تو ان غلاموں کی ذمہ داری آپ مجھ کو سنبھالنے کا اختیار دے دیں۔اس سے پہلے ان غلاموں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تاجر کی بیٹی کے پاس تھی۔تاجر نے غلام کو اس لئے آزاد نہیں کروایا تھا کہ وہ بھی اس غلام کو کسی منڈی میں جا کر اونچی بولی میں فروخت کرے گا بلکہ تاجر کے دل میں یہ خیال تھا علم خود ایک بہت بڑی دولت ہے میں نے اس غلام کو خرید کر گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔

تاجر اب ملک میں اپنے نیک عمل کی وجہ سے پہچاناجانے لگا۔ایک دن رات کے وقت آزاد غلام دیوار پر کوئلے سے تصویریں بنا رہا تھا تاجر کی بیٹی نے جب یہ تصویریں دیکھیں تو اس کی روح کانپ اُٹھی۔آزاد غلام نے ان تصویروں میں آزادی اور غلامی کا جو تصور پیش کیا تاجر کی بیٹی سمجھ گئی کہ انسانوں کو خرید کر قید کیا جا سکتا ہے مگر ان کے جذبات کو نہیں۔
تاجر کی بیٹی نے یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد آزاد غلام کو کہا تم اپنی مرضی سے آجا سکتے ہو۔اس طرح وقت گزرتا گیا۔آزاد غلام نے تاجر کے دوسرے غلاموں کو پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی دی۔جبکہ تاجر نے ایک پڑھا لکھا غلام خریدا تھا اب اس تاجر کے پاس کئی پڑھے لکھے غلام تھے۔
اس ملک کا بادشاہ کئی بار پانی کے مسئلہ کی وجہ سے اپنے ہمسایہ ملک سے جنگ کر چکا تھا مگر ہر بار ہارنے کی وجہ سے بادشاہ کے ذہن میں کامیابی کی کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔
کھیت سوکھ رہے تھے۔جانور بھوک اور پیاس کی وجہ سے مر رہے تھے۔
ملک میں اناج کا قحط پڑ گیا۔دن بدن ملک میں اناج کی کمی بڑھتی جا رہی تھی۔ایک دن بادشاہ کے وزیر نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت آپ مجھے بولنے کی اجازت دیں تو میں ملک کی بہتری کے لئے آپ کو کوئی مشورہ دوں۔بادشاہ نے کہا اجازت ہے۔وزیر نے کہا یہاں سے دو بستیاں چھوڑ کر ایک عبداللہ تاجر بڑا مشہور ہے اس کے پاس ایک آزاد نام کا غلام ہے تاجر نے اسے ساٹھ غلاموں کے بدلے میں خریدا تھا اور یہ بھی سنا ہے عبداللہ کے پاس کئی فوجی تربیت یافتہ غلام بڑی تعداد میں ہیں۔
بادشاہ سلامت اگر آپ آزاد غلام کو اس بار فوج کا سپہ سالار بنا کر بھیجیں تو مجھے یقین ہے اس مرتبہ ہمسایہ ملک سے جنگ ضرور جیتیں گے۔بادشاہ نے وزیر کی بات مان لی اور آزاد غلام کو اپنے محل میں بلوایا اور بہادر نوجوان ہمارے ملک کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ہمارے ملک میں پانی کی کمی کی وجہ سے اناج کی بہت قلت پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے کھیت سوکھ رہے ہیں اور جانور پیاس کی وجہ سے ہر روز مر رہے ہیں۔
لوگ اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اگر تم ہمسایہ ملک سے جنگ جیت کر لوٹے تو تمہیں ایک بڑے عہدے پر فائز کر دیں گے۔آزاد نے بادشاہ کے آگے سر جھکا کر ادب سے کہا(انشاء اللہ) ہم یہ جنگ ضرور جیتیں گے۔بادشاہ نے اپنی فوج کی ذمہ داری کے فرائض آزاد کو دے دیئے۔آزاد نے پہلے کئی ہفتوں تک بادشاہ کی فوج کو تربیت دی پھر ایک بھاری لشکر کے ساتھ فوج روانہ ہونے سے پہلے تاجر کی بیٹی نے آزاد سے کہا میں بھی سپاہیوں کے ساتھ چلوں گی زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے اس سے پہلے تاجر کی بیٹی اپنے غلاموں کی دیکھ بھال کے کاموں میں حصہ لیتی تھی اور جنگ ہمسایہ ملک کے ساتھ شروع ہو گئی۔

یہ جنگ کئی مہینوں تک جاری رہی۔آخرکار آزاد کی سردیوں میں جنگ کرنے کی وجہ بادشاہ کی سمجھ میں آگئی۔دشمن سخت سردیوں کی وجہ سے زیادہ دیر آزاد کی فوج سے ٹکر نہ لے سکا اور میدان میں ہتھیار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔وہاں کے بادشاہ کا رستم گھوڑا بھی آزاد نے اپنے قبضہ میں لے لیا اور فتح کا اعلان کر دیا اور اردگرد کے بہت سے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔
اپنی کامیابی قاصد کے ہاتھ بھیج دی جس پر یہ لکھا تھا کہ بادشاہ سلامت آداب فتح مبارک ہو مگر مجھے یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے کہ کمزور حکمران کہیں بھی ہوں وہ ناکام ہوتے ہیں۔
میں اگر آپ کے پاس جنگ جیت کر واپس آتا ہوں تو آپ مجھے زیادہ سے زیادہ وزیر یا گورنر بنا دیں مگر میں اب واپس نہیں آنا چاہتا۔اگر آپ مجھے خوشی سے اس ملک کا بادشاہ تسلیم کر لیں تو میں آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے تیار ہوں۔
اگر آپ مجھے اس ملک کا بادشاہ نہیں مانتے تو پھر جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔بادشاہ کو جب قاصد نے یہ پیغام پڑھ کر سنایا تو بادشاہ نے کہا بہادر لوگ اپنی جگہ خود بنا لیتے ہیں۔
اس طرح آزاد دوسرے ملک کا بادشاہ بن گیا۔دونوں ملکوں کے حالات بہتر ہو گئے کھیتوں میں ہریالی آنے لگی۔آزاد نے عبداللہ تاجر کی بیٹی سے شادی کرکے خوشگوار زندگی کا آغاز کیا۔

Browse More Moral Stories